داغ غزل: بُرا ہے شاد کو ناشاد کرنا

بُرا ہے شاد کو ناشاد کرنا
سمجھ کر، سوچ کر بیداد کرنا

نہیں آتا ہمیں برباد کرنا
یہ پھر کہنا، یہ پھر ارشاد کرنا

عدو کے غم میں یوں فریاد ہر وقت
بھلا دوں گا تجھے میں یاد کرنا

مرے صیاد کو اک کھیل ٹھہرا
پھنسا کر دام میں آزاد کرنا

جو آنکھوں میں ہے، دل میں ہو وہی نور
الٰہی دونوں گھر آباد کرنا

رہے بعدِ فنا بھی جس کی لذت
قسم ہے تم کو وہ بیداد کرنا

ہمیں شوقِ جفا ہے، یہ تو کہہ دو
نہ کرنا، یا ستم ایجاد کرنا

غمِ دنیا و دیں میں مبتلا ہوں
مرے مولا مری امداد کرنا

چھپانا رازِ وصل احباب سے داغؔ
پھر ارمانِ مبارک باد کرنا

٭٭٭
داغؔ دہلوی
 
Top