داغ ایک آنکھ میں حیا تو شرارت ہے ایک میں ۔ داغ دہلوی

فرخ منظور

لائبریرین
ایک آنکھ میں حیا تو شرارت ہے ایک میں
یہ شرم ہے غضب کی وہ شوخی بلا کی ہے

بعدِ فنا بھی چین نہیں مشتِ خاک کو
گویا بنی ہوئی مری مٹی ہوا کی ہے

کوئی یقین کیوں نہ کرے اُن کے قول کا
ہر بات میں قسم ہے، قسم بھی خدا کی ہے

اے پیرِ مے کدہ نہیں نشہ شراب میں
کھینچی ہوئی مگر یہ کسی پارسا کی ہے

وہ وقتِ نزع دیکھ کے مجھ کو یہ کہہ گئے
اچھا ہے یہ تو، کیا اسے حاجت دوا کی ہے

اُس نے نظر چرائی جو ہم سے تو کیا ہوا؟
وہ کیوں ڈرے یہ کیا کوئی چوری خدا کی ہے؟

شوخی سمائی جاتی ہے عہدِ شباب میں
دشوار روک تھام اب ان کو وفا کی ہے

دو حصے میری جان کے ہیں تیرے عشق میں
آدھی ادا کی نذر ہے، آدھی قضا کی ہے

یہ دیکھتے ہی دیکھتے کس کس سے پھر گئی
گردش نصیب آنکھ بھی تیری بلا کی ہے

اے داغؔ بزمِ اہلِ سخن گرم ہو گئی
گرمی ترے کلام میں بھی انتہا کی ہے

(داغؔ دہلوی)

 
Top