داغ طرزِ قدسی میں کبھی ،شیوۂ انساں میں کبھی ۔ داغ دہلوی

فرخ منظور

لائبریرین
طرزِ قدسی میں کبھی ،شیوۂ انساں میں کبھی
ہم بھی اک چیز تھے اس عالمِ امکاں میں کبھی

رنج میں رنج کا راحت میں ہوں راحت کا شریک
خاکِ ساحل میں کبھی موج ہوں طوفاں میں کبھی

دل میں بے لطف رہی خارِ تمنا کی خلش
نوک بن کر نہ رہا یہ کسی مژگاں میں کبھی

دم مرا لے کے ستم گار کرے گا تو کیا
یہ رہے گا نہ ترے خنجرِ برّاں میں کبھی

وار کرتے ہی بھرا زخم میں قاتل نے نمک
تیغ پر ہاتھ کبھی ہے تو نمک داں میں کبھی

دل کے لینے میں تو یہ شوخی و چالاکی ہے
تم سے چستی نہ ہوئی سستیِ پیماں میں کبھی

بات کیا خاک کرے وصل میں تیرے ڈر سے
جس نے نالہ نہ کیا ہو شبِ ہجراں میں کبھی

دلِ آشفتہ کے انداز سے معلوم ہوا
رہ گیا ہے یہ تری زلفِ پریشاں میں کبھی

خضر سے میں نے جو کیں جوشِ جنوں کی باتیں
ایسے نکلے کہ نہ آئے تھے بیاباں میں کبھی

مجھ کو اندازِ تمنا سے یقیں ہوتا ہے
دم نکل جائے گا اس حسرت و ارماں میں کبھی

اللہ اللہ رے تری شوخ بیانی اے داغؔ
سست اک شعر نہ دیکھا ترے دیواں میں کبھی

(نواب مرزا داغؔ دہلوی)
 
Top