شفیق خلش شفیق خلش ::::: کچھ سفیدی نے سحرکی رنگ بھی پکڑا نہ تھا ::::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین

شفیق خلش

کچھ سفیدی نے سحرکی رنگ بھی پکڑا نہ تھا
رات کی اُس تِیرَگی کو بھی ابھی جکڑا نہ تھا

خواب میں تھے سب مکینِ وادئ جنّت نظیر
رات کے سب خواب تھے دن کا کوئی دُکھڑا نہ تھا

سحری کرکے پانی پی کے سو گئے تھے روزہ دار
وہ بھی حاصل جن کو روٹی کا کوئی ٹکڑا نہ تھا

حُسن فِطرت میں کہ تھے پالے ہُوئے چہرے وہاں
ہو نہ جس پہ رشک ایسا کوئی بھی مُکھڑا نہ تھا

بھیج کر بچوں کو مکتب پل کو جو لیٹے ہی تھے
آگیا یوں زلزلہ، کیا تھا کہ جو اُکھڑا نہ تھا

ہر طرف لاشیں تھیں یا پھر گونجتی آہ و بکا
کون تھا اپنے لہو میں خود ہی جو لِتھڑا نہ تھا

اپنوں کو کیسے نکالیں یوں دبی دیوار سے
سوچ میں تھے غرق سب کوئی مگر تگڑا نہ تھا

کوئی گھرایسا نہ تھا جس کے پیاروں کو وہاں
موت کے بے رحم ہاتھوں نے خلش جکڑا نہ تھا

یونہی کتنے مرنے والوں کو لِٹایا قبر میں
ڈھانپنے کو لاش کے دو گز یہاں کپڑا نہ تھا

سوچتا ہُوں کیوں مِلی اِن روزہ داروں کو سزا
تیرے آگے اپنا ماتھا کیا کبھی رگڑا نہ تھا

یہ نمازی اُس کے ہی سب نام لیوا تھے خلش
دین کا اور کفر کا، ایسا کوئی جھگڑا نہ تھا

شفیق خلش
٨ اکتوبر، ٢٠٠٥ ( ماہِ رمضاں ) کشمیر زلزلہ
 
آخری تدوین:
Top