طارق شاہ
محفلین
غزل
ثمینہ راجہ
چند گِلے بُھلا دئیے، چند سے درگُزر کِیا
قصۂ غم طوِیل تھا،جان کے مُختصر کِیا
جُھوٹ نہیں تھا عشق بھی، زِیست بھی تھی تجھے عزِیز
میں نے بھی اپنی عُمْر کو اپنے لئے بَسر کِیا
جیسے بھی تیرے خواب ہُوں، جو بھی تِرے سراب ہُوں
میں نے تو ریت اوڑھ لی، میں نے تو کم سفر کِیا
تیری نِگاہِ ناز کا لُطف و گُریز ایک ساتھ
شوق تھا کچھ اگر، رہا! رنج تھا کچھ اگر، کِیا
ٹُوٹ کے پھر سے جُڑ گیا خواب کا زرد سِلسِلہ
میں نے تِرے فراق کو نیند میں ہی بَسر کیا
راہ بہت طوِیل تھی، راہ میں اِک فصِیل تھی
اُس کو بھی مُختصر کِیا، اُس میں بھی ایک در کِیا
ہم تو عجیب لوگ تھے، ہم کو ہزار رَوگ تھے
خوب کِیا، جو آپ نے، غیر کو ہمسفر کِیا
ثمینہ راجہ
ثمینہ راجہ
چند گِلے بُھلا دئیے، چند سے درگُزر کِیا
قصۂ غم طوِیل تھا،جان کے مُختصر کِیا
جُھوٹ نہیں تھا عشق بھی، زِیست بھی تھی تجھے عزِیز
میں نے بھی اپنی عُمْر کو اپنے لئے بَسر کِیا
جیسے بھی تیرے خواب ہُوں، جو بھی تِرے سراب ہُوں
میں نے تو ریت اوڑھ لی، میں نے تو کم سفر کِیا
تیری نِگاہِ ناز کا لُطف و گُریز ایک ساتھ
شوق تھا کچھ اگر، رہا! رنج تھا کچھ اگر، کِیا
ٹُوٹ کے پھر سے جُڑ گیا خواب کا زرد سِلسِلہ
میں نے تِرے فراق کو نیند میں ہی بَسر کیا
راہ بہت طوِیل تھی، راہ میں اِک فصِیل تھی
اُس کو بھی مُختصر کِیا، اُس میں بھی ایک در کِیا
ہم تو عجیب لوگ تھے، ہم کو ہزار رَوگ تھے
خوب کِیا، جو آپ نے، غیر کو ہمسفر کِیا
ثمینہ راجہ