شفیق خلش شفیق خلش ::::: دِل میں ہجرت کے نہیں آج تو کل ہوں گے خلش ::::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین

غزلِ

شفیق خلش

دِل میں ہجرت کے نہیں آج تو کل ہوں گے خلش
زخم ہوں گے کبھی لمحے، کئی پَل ہوں گے خلش

بے اثر تیرے کِیے سارے عمل، ہوں گے خلش
جو نہیں آج، یہ اندیشہ ہے کل ہوں گے خلش

زندگی بھر کے لئے روگ سا بن جائیں گے!
گرنہ فوراّ ہی خوش اسلوبی سے حل ہوں گے خلش

کارگر اُن پہ عملِ راست بھی ہوگا نہ کوئی
کُہنہ رسّی سا لِئے دل میں جو بَل ہوں گے خلش

اپنی کوتاہی سے پانے کی شِکایت کِس سے ؟
جب توجّہ نہ برابر ہو تو پھل ہوں گے خلش

زیراثر دردِ جُدائی سے تاَسُّف کے ہُوں اب
کب یہ احساس تھا پہلے کہ اٹل ہوں گے خلش

اتنی آسانی سے دِل سے نہ خلش جائیں گے
کچھ تباہی پہ ہی مُنتج بہ خلل ہوں گے خلش

اُن کو پانے کی یہی سوچ کے ہمّت ہو خلش !
سعیِ ناکام کے سارے ہی بَدل ہوں گے خلش

شفیق خلش
 
Top