طارق شاہ
محفلین
غزل
حسن عباسی
تیری مشکل نہ بڑهاؤں گا چلا جاؤں گا
اشک آنکھوں میں چهپاؤں گا چلا جاؤں گا
اورگلیوں سے تو مجھ کو نہیں لینا کچھ بهی !
بس تمہیں دیکهنے آؤں گا چلا جاؤں گا
اپنی دہلیز پہ کچھ دیر پڑا رہنے دو
جیسے ہی ہوش میں آؤں گا چلا جاؤں گا
مدّتوں بعد میں آیا ہُوں پرانے گهر میں
خود کو جی بهر کے رُلاؤں گا چلا جاؤں گا
چند یادیں مجهے بچّوں کی طرح پیاری ہیں
اُن کو سینے سے لگاؤں گا چلا جاؤں گا
خواب لینے کوئی آئے، کہ نہ آئے کوئی
میں تو آواز لگاؤں گا چلا جاؤں گا
میں نے یہ جنگ نہیں چهیڑی یہاں اپنے لیے
تخت پہ تم کو بٹهاؤں گا چلا جاؤں گا
آج کی رات گُزاروں گا مدِینے میں حَسن
صُبْح تلوار اُٹهاوں گا چلا جاوں گا
حسن عباسی