پیٹ بھر کر جو کوئی کھاتا ہے
ناک منہ بھی وہی چڑھاتا ہے
ہم غریبوں سے میٹھے بول بھی تو
ہم غریبوں سا بول پاتا ہے
جتنا بڑھتا ہے جاتا علم اِس کا
آدمی اُتنا جھکتا جاتا ہے
سب کے سب لگنے لگتے ہیں مکار
خود میں جب کچھ سدھار آتا ہے
عشق، شاید خلل دماغ کا ہو
لیکن اپنے سے لا مِلاتا ہے
بُھولے پھرتے ہیں...