خدا کی راہ میں، چل چل کے، موت پاؤں گا

عظیم

محفلین

خدا کی راہ میں، چل چل کے، موت پاؤں گا
نہیں ہے اور کوئی رہ، جدھر کو جاؤں گا

میں ناتواں ہوں مگر میرا رب ہے طاقت ور
جو تھک کے گر بھی گیا مَیں، تو ہاتھ اٹھاؤں گا

یہ جانتے ہوئے، تم لوگ ہو غلط رہ پر
میں کوئی سایہ نہیں ہوں، جو پیچھے آؤں گا

مرے خدا کی رضا ہے اگر تو اے لوگو !
میں روکھی سوکھی سہی، پیٹ بھر کے کھاؤں گا

تماش بین ہے دنیا تو دیکھ لے جی بھر
میں اپنے آپ کو اُس کے لیے مٹاؤں گا

جو کوئی راہ میں آئے گا مجھ غریب کی، وہ
یہ جان لے کہ میں اُس پر ترس نہ کھاؤں گا

مرے لیے کوئی چارہ نہیں عظیم کہ میں
اگر نہ شعر کہوں گا، تو جی نہ پاؤں گا


 

عظیم

محفلین


میرے بھی دوست ہوتے، جو تالیاں بجاتے
جب شعر میں سناتا، تو ساتھ گنگناتے

وہ کیا ہے، میری عادت، ہرگز نہیں خوش آمد
ورنہ، مرے اشارے، پر لوگ دوڑے آتے

اے کاش ! ایسا ہوتا، جھکتے ہیں جن کے آگے
یہ لوگ، در حقیقت، ان کا دِیا ہی کھاتے

سچا جو شعر ہو گا، پہنچے گا ہر زباں تک
رہ جائیں گے گَوّیے، گا گا، کہیں سناتے

مجھ کو ہے کیا کہ تم لوگ، دو داد اپنوں کو ہی
میری تو جان بھی اب، پڑ گئی پرائے کھاتے

پگلا تھا جو تم ایسے، لوگوں میں آ پھنسا تھا
ورنہ، میں وہ تھا جس کو، رہتے تھے سب بلاتے

رو رو کے اس جگہ میں، آتا رہا ہوں لوگو !
لیکن تم ان کے تھے جو، ٹھٹھے تھے بس اڑاتے


 

عظیم

محفلین

اُس کی تو جے جے کار ہے جس کا مقام ہو
پٹتا ہے وہ غریب کہ بندہ جو عام ہو

اے عاقلو جہان کے، دیکھی تمہاری عقل
چلتا ہوں اپنی راہ پہ، تم کو سلام ہو !

علم و ادب سے کام نہیں ہے کسی کو آج
ہر کوئی چاہتا ہے کہ بس رام رام ہو

اس بھیڑ میں، مَیں کیوں رہوں پیچھے اے ظالمو !
چاہوں نہ میں بھی کیوں، کہیں میرا بھی نام ہو

کہتے تو پھرتے ہو کہ بہت نیک خو ہو تم
دراصل اپنی نیتِ بد کے غلام ہو

ٹوٹی کسی کی ٹانگ تو روتے ہو پہروں بیٹھ
مرتا ہوں میں یہاں، کوئی آؤ، جو کام ہو

دل چاہتا ہے تم پہ لگاؤں میں قہقہے
اس درجہ میری نظروں میں خستہ ہو خام ہو





 

عظیم

محفلین


بہت رویا ذرا سا مسکرا لوں
ہنسی چہرے پہ اپنے اب سجا لوں

مجھے سودا تھا یا شاید جنوں تھا
اب آتا ہوش ہے، اپنا پتا لوں

کہاں اس دشت میں، ملتا ہے اپنا
میں اپنے آپ کو سینے لگا لوں

ٹھہر اے مسکراہٹ، میرے لب کی !
میں گزرے وقت کے صدمے بھلا لوں

بہت ہنستی تھی دنیا مجھ پر اے دل !
اب اِس کی ذات کا ٹھٹھا اڑا لوں ؟

دھکیلا موت کے منہ تک اے ظالم
میں کیسے ہاتھ تجھ سے آ ملا لوں

سمجھ کچھ کچھ جو بڑھتی جا رہی ہے
تو یہ چاہا ہے اب خود کو سنبھالوں








 

عظیم

محفلین

ناقد تو تب ہو تُو کہ خود اپنا ہو حال ٹھیک
چلنا وہی سکھاتا ہے جس کی ہو چال ٹھیک

اے شخص، عمر کا بھی تھا اپنی، لحاظ کچھ ؟
بچوں کا تو پرکھتا ہے، اندھے ! کمال، ٹھیک !

جس کو سمجھ ہو، بوجھ ہو، اُس پر تو ہنس، درست !
جس کا ہو رعب، نام ہو، پگڑی اچھال، ٹھیک !


 

عظیم

محفلین

میں جانتا ہوں، محبت ہی کامیابی ہے
مگر وہ شخص، کہ جس سے مری خرابی ہے

میں کس طرح سے کروں اعتبار لوگوں کا
کہ ان کا علم تو اپنا نہیں، کتابی ہے

ابھی تو وزن کو رکھنا درست سیکھا ہے
ابھی تو شعر کا کہنا بھی اکتسابی ہے

نماز، روزہ کا پابند ہے، فقیر بھی ہو !
خیال رکھنا کہ بندہ ذرا نوابی ہے

مجھے یہ بات ہی غالب سے دور لے جائے
کہ جو بھی کہتا پھرے، کیا ہے، اک شرابی ہے




 

الف عین

لائبریرین
عظیم میری خواہش ہے کہ تم خود ان غزلوں کی اصلاح کرو!
محاوروں سے اتنی چھیڑ چھاڑ اچھی نہیں کہ کئی الفاظ ہی حذف کر دئے جائیں!
 

عظیم

محفلین


کوئی، میری حالت، کہاں دیکھتا ہے
تماشا بنا کر ، جہاں دیکھتا ہے

وہ ہے جلوہ فرما، اگر آسماں پر
تو مت بُھول غافل، یہاں دیکھتا ہے

غریب آدمی، آسماں دیکھتا ہے
امیروں کو سارا جہاں دیکھتا ہے

جسے ہو بھلائی کی خواہش، وہ بندہ
کہاں، کوئی سود و زیاں دیکھتا ہے

یہی سچ ہے، جس دل میں ڈر ہو خدا کا
وہی اپنے رب کے نشاں دیکھتا ہے

یہی کچھ، وہاں ہو، یہ کب دور، اُس سے ؟
یہ جو کچھ تُو بیٹھا، یہاں دیکھتا ہے

بھلائی کی ہو جس کو امید، وہ خوش
بُرا ہے طرف بس دھواں دیکھتا ہے

ہر اک، دوسرے پر، ہے انگلی اُٹھائے
کوئی اپنی جانب کہاں دیکھتا ہے

عظیم اِس سے کیا، کوئی دیکھے نہ دیکھے
مجھے بیٹھا وہ، مہرباں دیکھتا ہے


 

عظیم

محفلین



محبت ہے یا کوئی جادو گری ہے
مجھے اپنی صورت نظر آ رہی ہے

یہ دیوانگی دیکھ کر میری، شاید
جو دانائی چپ ہے، تو شرما گئی ہے

اگر آج فرہاد بھی زندہ ہوتے
یہی کہتے جاتے، کہ "عاشق یہی ہے"

فرشتوں سے کمتر نہیں ہے، یہ آدم
جو آئی پہ آئے تو حیوان بھی ہے

مجھے اپنا بندہ، بنا لے وہ مولا
یہی دل میں خواہش، دعا بھی یہی ہے

نہ جانے، نہیں دیکھ پاتے ہیں، کیوں لوگ
غضب کا اجالا، بَلا روشنی ہے

عظیم آج خوش ہوں، مگر پھر بھی، دل میں
یہ احساس سا ہے، کہیں کچھ کمی ہے

.....



 
آخری تدوین:
Top