محمداحمد

لائبریرین
پسِ گردِ جادۂ درد نور کا قافلہ بھی تو دیکھتے​
جو دلوں سے ہو کے گزر رہا ہے وہ راستہ بھی تو دیکھتے​

یہ دھواں جو ہے یہ کہاں کا ہے وہ جو آگ تھی ہو کہاں کی تھی​
کبھی راویانِ خبر زدہ پسِ واقعہ بھی تو دیکھتے​

افتخار عارف
 

محمداحمد

لائبریرین
ہم تو جیسے وہاں کے تھے ہی نہیں​
بے اماں تھے، اماں کے تھے ہی نہیں​
اس گلی نے یہ سن کے صبر کیا​
جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں​
ان کو آندھی میں ہی بکھرنا تھا​
بال و پر آسماں کے تھے ہی نہیں​
ہم کہ ہیں تیری داستاں یکسر​
ہم تری داستاں کے تھے ہی نہیں​
اب ہمارا مکان کس کا تھا​
ہم کہ اپنے مکاں کے تھے ہی نہیں​
جون ایلیا​
 
Top