غزل
خِزاں کے جَور سے واقف کوئی بہار نہ ہو
کسی کا پَیرَہَنِ حُسن تار تار نہ ہو
برنگِ سبزۂ بیگانہ روند ڈالے فلک
مجھے، بہار بھی آئے تو ساز گار نہ ہو
خِزاں کے آتے ہی گلچیں نے پھیر لیں آنکھیں
کسی سے کوئی وَفا کا اُمِیدوار نہ ہو
ٹھہر ٹھہر دلِ وحشی، بہار آنے دے
ابھی سے بہر خُدا اِتنا بے قرار نہ ہو...
غزل
اِک ندامت عِوَض کا عیب نہیں
پارسا کہنا پھر بھی زیب نہیں
ظاہر و باطن ایک رکھتا ہُوں
مَیں ریاکار و پُر فریب نہیں
ہُوں مَیں کچھ کچھ یہاں بھی شورِیدہ
راست کہنا کہاں پہ عیب نہیں
ہے تسلسل سے راہِ زیست گراں
کُچھ تنزل نہیں، نشیب نہیں
اُلجھنیں معرضِ وُجُود ہوں خود
کارفرما کُچھ اِس میں غیب نہیں...
غزل
فراقؔ گورکھپُوری
دیکھنے والے تِرے آج بھی بیدار سے ہیں
آج بھی آنکھ لگائے رسن و دار سے ہیں
مُدّتیں قید میں گُذرِیں، مگر اب تک صیّاد
ہم اسِیرانِ قفس تازہ گرفتار سے ہیں
کیا کہیں وہ تِرے اقرار، کہ اقرار سے تھے
کیا کریں یہ تِرے انکار، کہ انکار سے ہیں
کُچھ نہ جِینے میں ہی رکّھا ہے، نہ مرجانے...
غزل
نہ مبتلائے تردُّد حیات کی جائے
ذرا سا دُور رہے، سب سے بات کی جائے
کنارا کرتے تھے اکثر شُنِید و گُفت سے جو
ترس رہے ہیں کہ اب کِس بات کی جائے
وَبا میں ملِنے کی اتنی نہ آرزو ہو اُنھیں
جو گفتگوئے ہمہ ممکنات کی جائے
نہ جینا اچھا تھا اُن کا جو مر رہے ہیں یہاں
اگر تمیزِ حیات و ممات کی...
غزل
اکبؔر الٰہ آبادی
دِل زِیست سے بیزار ہے،معلُوم نہیں کیوں
سینے پہ نَفَس بار ہے، معلُوم نہیں کیوں
اِقرارِ وَفا یار نے ہر اِک سے کِیا ہے
مُجھ سے ہی بس اِنکار ہے، معلُوم نہیں کیوں
ہنگامۂ محشر کا تو مقصوُد ہے معلُوم
دہلی میں یہ دربار ہے، معلوم نہیں کیوں
جِس سے دِلِ رنجُور کو ،پہونچی ہے اذِیّت...
غزل
طَلَب تھی جِس کی، وہ صُورت مِلی یہاں بھی نہیں
مُدافعت کوغموں کی مَیں وہ جَواں بھی نہیں
بَدیسی زِیست کو حاصِل مِزاج داں بھی نہیں
دروغ گوئی ہو، کہہ دُوں جو رائیگاں بھی نہیں
ثباتِ دِل کو ہی پُہنچے تھے ہم وطن سے یہاں
کہیں جو راست، تو حاصِل ہُوا یہاں بھی نہیں
غموں کی دُھوپ سے بچ لیں کِس ایک...
غزل
خواجہ حیدر علی آتشؔ
چمن میں رہنے دے کون آشیاں، نہیں معلُوم
نہال کِس کو کرے باغباں، نہیں معلوم
مِرے صنم کا کسی کو مکاں نہیں معلُوم
خُدا کا نام سُنا ہے، نشاں نہیں معلُوم
اخیر ہوگئے غفلت میں دِن جوانی کے!
بہار عمر ہُوئی کب خزاں نہیں معلُوم
سُنا جو ذکرِ الٰہی، تو اُس صنم نے کہا
عیاں کو جانتے...
غزل
کوئی دستور، یا رواج تو ہو
عشقِ افزوں کا کوئی باج تو ہو
کچھ طبیعت میں امتزاج تو ہو
روزِ فردا کا اُن کی، آج تو ہو
مُنتظر روز و شب رہیں کب تک!
ماسوا، ہم کو کام کاج تو ہو
بس اُمید اور آس کب تک یُوں!
حاصِل اِس عِشق سے خراج تو ہو
دِل تسلّی سے خوش رہے کب تک
محض وعدوں کا کُچھ علاج تو ہو
ہم نہ...
سدِّبابِ جبر کو، دِیوار و در بالکل نہ تھا
جو سُکوں حاصل اِدھر ہے وہ اُدھر بالکل نہ تھا
تھا غضب کا دَور جس میں گھر بھی گھر بالکل نہ تھا
کون تھا مُثبت عمل جو در بَدر بالکل نہ تھا
حاکمِ وقت ایک ایسا تھا مُسلّط قوم پر
جس پہ، باتوں کا کسی کی، کُچھ اثر بالکل نہ تھا
حق شناسی، نوجوانی سے ودِیعت تھی...
غزلِ
بشیر بدر
نَظر سے گُفتگُو، خاموش لَب تمھاری طرح
غزل نے سِیکھے ہیں انداز سب تمھاری طرح
جو پیاس تیز ہو تو ریت بھی ہے چادرِ آب
دِکھائی دُور سے دیتے ہیں سب تمھاری طرح
بُلا رہا ہے زمانہ، مگر ترستا ہُوں
کوئی پُکارے مُجھے بے سَبَب تمھاری طرح
ہَوا کی طرح مَیں بیتاب ہُوں، کہ شاخِ گُلاب
لہکتی ہے...
غزل
جو، رُو شناس نے پیغام ہم کو چھوڑا ہے!
اُسی نے لرزہ براندام ہم کو چھوڑا ہے
نہ خوف و خاطرِ انجام ہم کو چھوڑا ہے
بنا کے خوگرِ آلام ہم کو چھوڑا ہے
گو شَوقِ وصل نے، ناکام ہم کو چھوڑا ہے!
گلی سے دُور نہ اِک شام ہم کو چھوڑا ہے
قدم قدم نہ ہو دِل غم سے کیسے آزردہ !
مُصیبتوں نےکوئی گام ہم کو چھوڑا...
غزل
میرتقی میؔر
مَیلانِ دِل ہے زُلفِ سِیہ فام کی طرف
جاتا ہے صید آپ سے اِس دام کی طرف
دِل اپنا عدلِ داورِ محشر سے جمع ہے
کرتا ہے کون عاشقِ بدنام کی طرف
اِس پہلُوئے فِگار کو بستر سے کام کیا
مُدّت ہُوئی، کہ چُھوٹی ہے آرام کی طرف
یک شب نظر پڑا تھا کہیں تو ،سو اب مُدام
رہتی ہے چشمِ ماہ تِرے بام...
غزل
غرض تھی اپنی تو بانہوں میں بھر لیا تھا مجھے
کسی کی دشمنی میں دوست کرلیا تھا مجھے
مُسلسَل ایسے تھے حالات مَیں سنبھل نہ سکا
کُچھ اُس نے عِشق میں بھی سہل تر لیا تھا مجھے
کسی بھی بات کا کیونکر یقیں نہیں تھا اُنھیں
خُدا ہی جانے جو آشفتہ سر لیا تھا مجھے
کسی کا مشوَرہ درخورِ اِعتنا کب تھا
تھی...
غزل
صفؔی لکھنوی
ذرّے ذرّے میں ہے جلوہ تِری یکتائ کا
دِلِ اِنساں میں، جو ہو شوق شناسائ کا
موت ہی قصد نہ کرتی جو مسیحائ کا
کون پُرساں تھا مَرِیضِ شَبِ تنہائ کا
میری خوشبُو سے ہیں، آزاد ہَوائیں لبریز
عطرِ دامن ہُوں قبائے گُلِ صحرائ کا
تا سَحر چشمِ تصوُّر میں رہی اِک تصوِیر
دِل سے ممنُون ہُوں...
غزل
عبدالحمید عدمؔ
دِل تھا ،کہ پُھول بَن کے بِکھرتا چلا گیا
تصوِیر کا جمال اُبھرتا چلا گیا
شام آئی، اور آئی کچھ اِس اہتمام سے!
وہ گیسُوئے دراز بِکھرتا چلا گیا
غم کی لکیر تھی کہ، خوُشی کا اُداس رنگ
ہر نقش آئینے میں اُبھرتا چلا گیا
ہر چند، راستے میں تھے کانٹے بچھے ہُوئے
جس کو تیری طلب تھی...
غزل
خواجہ حیدر علی آتشؔ
عِشق کے سَودے سے پہلے دردِ سر کوئی نہ تھا
داغِ دِل خندہ زن، زخمِ جِگر کوئی نہ تھا
جوہری کی آنکھ سے دیکھے جواہر بیشتر
لعلِ لب سالعل، دنداں سا گُہر کوئی نہ تھا
خوب صُورت یُوں تو بہتیرے تھے، لیکن یار سا!
نازنیں، نازک بدن، نازک کمر کوئی نہ تھا
رہ گئی دِل ہی میں اپنے حسرتِ...
غزل
روزو شب دِل کو تخیّل سےلُبھائے رکھنا
ایک صُورت دِلِ وِیراں میں بَسائے رکھنا
خوش تصوّر سے ہر اِک غم کو دبائے رکھنا
کوئی اُمّید، ہمہ وقت لگائے رکھنا
بات سیدھی بھی ، معمّا سا بنائے رکھنا!
دِل کے جذبات کو عادت تھی چھپائے رکھنا
ڈر سے، ظاہر نہ مِرا اِضطراب اُن پر ہو کہیں!
ایک...
غزل
دِل لگانے کی جگہ عالَمِ ایجاد نہیں
خواب آنکھوں نے بہت دیکھے، مگر یاد نہیں
آج اسیروں میں وہ ہنگامۂ فریاد نہیں
شاید اب کوئی گُلِستاں کا سَبق یاد نہیں
سَرِ شورِیدہ سلامت ہے، مگر کیا کہیے!
دستِ فرہاد نہیں، تیشۂ فرہاد نہیں
توبہ بھی بُھول گئے عشق میں وہ مار پڑی
ایسے اَوسان گئے ہیں کہ خُدا یاد...
غزل
آشنا دست بر دُعا نہ ہُوا
دِل سے میرے ذرا جُدا نہ ہُوا
ذکرِ عِشق اُن سے برمَلا نہ ہُوا
پیار بڑھنے کا سِلسِلہ نہ ہُوا
کیا کہُوں اُن کے عَزْم و وَعدوں کا!
کُچھ بھی قَسموں پہ دَیرپا نہ ہُوا
بَن کے راحت رہے خیالوں میں
بس مِلَن کا ہی راستہ نہ ہُوا
شے مِلی اِس سے، اَور کرنے کی!
ظُلم پر جب بھی...
غزلِ
عبد الحمید عدمؔ
خیرات صِرف اِتنی ملی ہے حَیات سے
پانی کی بُوند جیسے عطا ہو فرات سے
شبنم اِسی جنُوں میں ازل سے ہے سِینہ کوب
خورشید کِس مقام پہ مِلتا ہے رات سے
ناگاہ عِشق وقت سے آگے نکل گیا
اندازہ کر رہی ہے خِرد واقعات سے
سُوئے ادب نہ ٹھہرے تو دیں کوئی مشورہ
ہم مطمئن نہیں ہیں تِری کائنات...