شفیق خلش ::::: طَلَب تھی جِس کی، وہ صُورت مِلی یہاں بھی نہیں:::::Shafiq-Khalish

طارق شاہ

محفلین

1.jpg

غزل
طَلَب تھی جِس کی، وہ صُورت مِلی یہاں بھی نہیں
مُدافعت کوغموں کی مَیں وہ جَواں بھی نہیں

بَدیسی زِیست کو حاصِل مِزاج داں بھی نہیں
دروغ گوئی ہو، کہہ دُوں جو رائیگاں بھی نہیں

ثباتِ دِل کو ہی پُہنچے تھے ہم وطن سے یہاں

کہیں جو راست، تو حاصِل ہُوا یہاں بھی نہیں

غموں کی دُھوپ سے بچ لیں کِس ایک ڈھارس پر

نظر میں دُور تلک ایک سائباں بھی نہیں

تلاطُم اب بھی مَیں رکھتا ہُوں خُود میں بھادوں کا

اگرچہ اشک کا دریا ہُوں جو رَواں بھی نہیں

شِکست و ریخت پہ کرتے رہیں گے اُس سے رُجوع

عیاں اگر نہیں بالکل تو وہ نہاں بھی نہیں

جَلائے رکھّے ہے ہر کیفیت میں دِل کو خلشؔ

اِک ایسی آگ جو شُعلہ نہیں، دُھواں بھی نہیں

تسلّی دیتے ہیں، کہہ کر یہ اپنے دِل کو، خلشؔ!

اگر نہ سُود، تو حاصِل پہ کُچھ زِیاں بھی نہیں

شفیق خلشؔ

 
Top