طارق شاہ
محفلین
غزل
اِک ندامت عِوَض کا عیب نہیں
پارسا کہنا پھر بھی زیب نہیں
ظاہر و باطن ایک رکھتا ہُوں
مَیں ریاکار و پُر فریب نہیں
ہُوں مَیں کچھ کچھ یہاں بھی شورِیدہ
راست کہنا کہاں پہ عیب نہیں
ہے تسلسل سے راہِ زیست گراں
کُچھ تنزل نہیں، نشیب نہیں
اُلجھنیں معرضِ وُجُود ہوں خود
کارفرما کُچھ اِس میں غیب نہیں
چاہت اُس کی بِلا ضَرُورت ہے
کُچھ ریا اِس میں، کوئی ریب نہیں
وہ توکّل کا پیراہن ہُوں خلشؔ!
جس میں فردا کا کوئی جیب نہیں
شفیق خلشؔ