آتش خواجہ حیدر علی::::: چمن میں رہنے دے کون آشیاں، نہیں معلوم ::::: Khwaja Haidar Ali Aatish

طارق شاہ

محفلین
غزل
خواجہ حیدر علی آتشؔ

چمن میں رہنے دے کون آشیاں، نہیں معلُوم
نہال کِس کو کرے باغباں، نہیں معلوم

مِرے صنم کا کسی کو مکاں نہیں معلُوم
خُدا کا نام سُنا ہے، نشاں نہیں معلُوم

اخیر ہوگئے غفلت میں دِن جوانی کے!
بہار عمر ہُوئی کب خزاں نہیں معلُوم

سُنا جو ذکرِ الٰہی، تو اُس صنم نے کہا
عیاں کو جانتے ہیں ہم ، نہاں نہیں معلُوم

کِیا ہے کِس نے طریقِ سلوک سے آگاہ!
مُرید کس کا ہے پیرِ مُغاں نہیں معلُوم

مِری طرح تو نہیں اس کو عِشق کاآزار!
یہ زرد رہتی ہے کیوں زعفراں نہیں معلُوم

جہان و کارِ جہاں سے ہُوں بے خبر ، مَیں مست!
زمِیں کدھر ہے، کہاں آسماں، نہیں معلُوم

سُپرد کِس کے مِرے بعدہوامانتِ عِشق
اُٹھائے کون یہ بارِ گراں نہیں معلُوم

خموش ایسا ہُوا ہُوں مَیں کم دماغی سے!
دہن میں ہے کہ نہیں ہے زباں، نہیں معلُوم

مِری تمھاری محبّت ہے شہرۂ آفاق
کسے حقیقتِ ماہ و کتاں، نہیں معلُوم

کِس آئینے میں نہیں جلوہ گر تِری تمثال
تُجھے سمجھتے ہیں ہم، این و آں نہیں معلُوم

کھلی ہے خانۂ صیّاد میں ہماری آنکھ!
قفس کو جانتے ہیں، آشیاں نہیں معلُوم

عجب نہیں ہےجو اہلِ سُخن ہوں گوشہ نشیں
کسی دہن میں زباں کا مکاں نہیں معلُوم

چُھٹیں گے زیست کے پھندے سے کِس دِن اے آتشؔ
جنازہ ہوگا کب اپنا رَواں نہیں معلُوم

خواجہ حیدر علی آتشؔ

 
Top