پھر سے در پیش ہوا لگتا ہے باہر کا سفر
لہر سی اُٹھنے لگی ہے کوئی نَس کے اندر
رَس بنایا گیا اس زندگی کو پہلے، پھر
موت کا زہر ملایا گیا رَس کے اندر
کون انگڑائی سی لیتا ہے نفس کے اندر
لذتِ وصل مہکتی ہے ہوس کے اندر
پھول نے صرف بکھیری ہے مہک بھینی سی
اصل خوشبو تو وگرنہ ہے سِرَس کے اندر
قافلے...