طارق شاہ

  1. طارق شاہ

    فراق گورکھپُوری:::: دیکھنے والے تِرے آج بھی بیدار سے ہیں ::::Firaq -Gorakhpuri

    غزل فراقؔ گورکھپُوری دیکھنے والے تِرے آج بھی بیدار سے ہیں آج بھی آنکھ لگائے رسن و دار سے ہیں مُدّتیں قید میں گُذرِیں، مگر اب تک صیّاد ہم اسِیرانِ قفس تازہ گرفتار سے ہیں کیا کہیں وہ تِرے اقرار، کہ اقرار سے تھے کیا کریں یہ تِرے انکار، کہ انکار سے ہیں کُچھ نہ جِینے میں ہی رکّھا ہے، نہ مرجانے...
  2. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::: نہ مبتلائے تردُّد حیات کی جائے:::::Shafiq-Khalish

    غزل نہ مبتلائے تردُّد حیات کی جائے ذرا سا دُور رہے، سب سے بات کی جائے کنارا کرتے تھے اکثر شُنِید و گُفت سے جو ترس رہے ہیں کہ اب کِس بات کی جائے وَبا میں ملِنے کی اتنی نہ آرزو ہو اُنھیں جو گفتگوئے ہمہ ممکنات کی جائے نہ جینا اچھا تھا اُن کا جو مر رہے ہیں یہاں اگر تمیزِ حیات و ممات کی...
  3. طارق شاہ

    اکبر الہ آبادی :::::دِل زِیست سے بیزار ہے،معلُوم نہیں کیوں::::::::::Akbar -Allahabadi

    غزل اکبؔر الٰہ آبادی دِل زِیست سے بیزار ہے،معلُوم نہیں کیوں سینے پہ نَفَس بار ہے، معلُوم نہیں کیوں اِقرارِ وَفا یار نے ہر اِک سے کِیا ہے مُجھ سے ہی بس اِنکار ہے، معلُوم نہیں کیوں ہنگامۂ محشر کا تو مقصوُد ہے معلُوم دہلی میں یہ دربار ہے، معلوم نہیں کیوں جِس سے دِلِ رنجُور کو ،پہونچی ہے اذِیّت...
  4. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::: طَلَب تھی جِس کی، وہ صُورت مِلی یہاں بھی نہیں:::::Shafiq-Khalish

    غزل طَلَب تھی جِس کی، وہ صُورت مِلی یہاں بھی نہیں مُدافعت کوغموں کی مَیں وہ جَواں بھی نہیں بَدیسی زِیست کو حاصِل مِزاج داں بھی نہیں دروغ گوئی ہو، کہہ دُوں جو رائیگاں بھی نہیں ثباتِ دِل کو ہی پُہنچے تھے ہم وطن سے یہاں کہیں جو راست، تو حاصِل ہُوا یہاں بھی نہیں غموں کی دُھوپ سے بچ لیں کِس ایک...
  5. طارق شاہ

    آتش خواجہ حیدر علی::::: چمن میں رہنے دے کون آشیاں، نہیں معلوم ::::: Khwaja Haidar Ali Aatish

    غزل خواجہ حیدر علی آتشؔ چمن میں رہنے دے کون آشیاں، نہیں معلُوم نہال کِس کو کرے باغباں، نہیں معلوم مِرے صنم کا کسی کو مکاں نہیں معلُوم خُدا کا نام سُنا ہے، نشاں نہیں معلُوم اخیر ہوگئے غفلت میں دِن جوانی کے! بہار عمر ہُوئی کب خزاں نہیں معلُوم سُنا جو ذکرِ الٰہی، تو اُس صنم نے کہا عیاں کو جانتے...
  6. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::کوئی دستور، یا رواج تو ہو:::::Shafiq-Khalish

    غزل کوئی دستور، یا رواج تو ہو عشقِ افزوں کا کوئی باج تو ہو کچھ طبیعت میں امتزاج تو ہو روزِ فردا کا اُن کی، آج تو ہو مُنتظر روز و شب رہیں کب تک! ماسوا، ہم کو کام کاج تو ہو بس اُمید اور آس کب تک یُوں! حاصِل اِس عِشق سے خراج تو ہو دِل تسلّی سے خوش رہے کب تک محض وعدوں کا کُچھ علاج تو ہو ہم نہ...
  7. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::سدِّبابِ جبر کو، دِیوار و در بالکل نہ تھا:::::Shafiq-Khalish

    سدِّبابِ جبر کو، دِیوار و در بالکل نہ تھا جو سُکوں حاصل اِدھر ہے وہ اُدھر بالکل نہ تھا تھا غضب کا دَور جس میں گھر بھی گھر بالکل نہ تھا کون تھا مُثبت عمل جو در بَدر بالکل نہ تھا حاکمِ وقت ایک ایسا تھا مُسلّط قوم پر جس پہ، باتوں کا کسی کی، کُچھ اثر بالکل نہ تھا حق شناسی، نوجوانی سے ودِیعت تھی...
  8. طارق شاہ

    بشیر بدر ::::::نَظر سے گُفتگُو، خاموش لَب تمُھاری طرح:::::: Dr. Bashir Badr

    غزلِ بشیر بدر نَظر سے گُفتگُو، خاموش لَب تمھاری طرح غزل نے سِیکھے ہیں انداز سب تمھاری طرح جو پیاس تیز ہو تو ریت بھی ہے چادرِ آب دِکھائی دُور سے دیتے ہیں سب تمھاری طرح بُلا رہا ہے زمانہ، مگر ترستا ہُوں کوئی پُکارے مُجھے بے سَبَب تمھاری طرح ہَوا کی طرح مَیں بیتاب ہُوں، کہ شاخِ گُلاب لہکتی ہے...
  9. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::جو، رُو شناس نے پیغام ہم کو چھوڑا ہے:::::Shafiq-Khalish

    غزل جو، رُو شناس نے پیغام ہم کو چھوڑا ہے! اُسی نے لرزہ براندام ہم کو چھوڑا ہے نہ خوف و خاطرِ انجام ہم کو چھوڑا ہے بنا کے خوگرِ آلام ہم کو چھوڑا ہے گو شَوقِ وصل نے، ناکام ہم کو چھوڑا ہے! گلی سے دُور نہ اِک شام ہم کو چھوڑا ہے قدم قدم نہ ہو دِل غم سے کیسے آزردہ ! مُصیبتوں نےکوئی گام ہم کو چھوڑا...
  10. طارق شاہ

    میر تقی مِیؔر ::::::مَیلانِ دِل ہے زُلفِ سِیہ فام کی طرف::::::Mir -Taqi -Mir

    غزل میرتقی میؔر مَیلانِ دِل ہے زُلفِ سِیہ فام کی طرف جاتا ہے صید آپ سے اِس دام کی طرف دِل اپنا عدلِ داورِ محشر سے جمع ہے کرتا ہے کون عاشقِ بدنام کی طرف اِس پہلُوئے فِگار کو بستر سے کام کیا مُدّت ہُوئی، کہ چُھوٹی ہے آرام کی طرف یک شب نظر پڑا تھا کہیں تو ،سو اب مُدام رہتی ہے چشمِ ماہ تِرے بام...
  11. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::غرض تھی اپنی تو بانہوں میں بھر لیا تھا مجھے:::::Shafiq-Khalish

    غزل غرض تھی اپنی تو بانہوں میں بھر لیا تھا مجھے کسی کی دشمنی میں دوست کرلیا تھا مجھے مُسلسَل ایسے تھے حالات مَیں سنبھل نہ سکا کُچھ اُس نے عِشق میں بھی سہل تر لیا تھا مجھے کسی بھی بات کا کیونکر یقیں نہیں تھا اُنھیں خُدا ہی جانے جو آشفتہ سر لیا تھا مجھے کسی کا مشوَرہ درخورِ اِعتنا کب تھا تھی...
  12. طارق شاہ

    صفیؔ لکھنوی:::::ذرّے ذرّے میں ہے جلوہ تِری یکتائ کا:::::Safi- Lakhnavi

    غزل صفؔی لکھنوی ذرّے ذرّے میں ہے جلوہ تِری یکتائ کا دِلِ اِنساں میں، جو ہو شوق شناسائ کا موت ہی قصد نہ کرتی جو مسیحائ کا کون پُرساں تھا مَرِیضِ شَبِ تنہائ کا میری خوشبُو سے ہیں، آزاد ہَوائیں لبریز عطرِ دامن ہُوں قبائے گُلِ صحرائ کا تا سَحر چشمِ تصوُّر میں رہی اِک تصوِیر دِل سے ممنُون ہُوں...
  13. طارق شاہ

    عدم عبدالحمید عدمؔ:::::دِل تھا ،کہ پُھول بَن کے بِکھرتا چلا گیا:::::Abdul -Hameed- Adam

    غزل عبدالحمید عدمؔ دِل تھا ،کہ پُھول بَن کے بِکھرتا چلا گیا تصوِیر کا جمال اُبھرتا چلا گیا شام آئی، اور آئی کچھ اِس اہتمام سے! وہ گیسُوئے دراز بِکھرتا چلا گیا غم کی لکیر تھی کہ، خوُشی کا اُداس رنگ ہر نقش آئینے میں اُبھرتا چلا گیا ہر چند، راستے میں تھے کانٹے بچھے ہُوئے جس کو تیری طلب تھی...
  14. طارق شاہ

    آتش خواجہ حیدر علی:::::عِشق کے سَودے سے پہلے دردِ سر کوئی نہ تھا ::::: Khwaja Haidar Ali Aatish

    غزل خواجہ حیدر علی آتشؔ عِشق کے سَودے سے پہلے دردِ سر کوئی نہ تھا داغِ دِل خندہ زن، زخمِ جِگر کوئی نہ تھا جوہری کی آنکھ سے دیکھے جواہر بیشتر لعلِ لب سالعل، دنداں سا گُہر کوئی نہ تھا خوب صُورت یُوں تو بہتیرے تھے، لیکن یار سا! نازنیں، نازک بدن، نازک کمر کوئی نہ تھا رہ گئی دِل ہی میں اپنے حسرتِ...
  15. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::روزو شب دِل کو تخیّل سےلُبھائے رکھنا :::::: Shafiq-Khalish

    غزل روزو شب دِل کو تخیّل سےلُبھائے رکھنا ایک صُورت دِلِ وِیراں میں بَسائے رکھنا خوش تصوّر سے ہر اِک غم کو دبائے رکھنا کوئی اُمّید، ہمہ وقت لگائے رکھنا بات سیدھی بھی ، معمّا سا بنائے رکھنا! دِل کے جذبات کو عادت تھی چھپائے رکھنا ڈر سے، ظاہر نہ مِرا اِضطراب اُن پر ہو کہیں! ایک...
  16. طارق شاہ

    یاس مرزا یاسؔ، یگاؔنہ، چنگیزیؔ:::::دِل لگانے کی جگہ عالَمِ ایجاد نہیں:::::yas, yagana,changezi

    غزل دِل لگانے کی جگہ عالَمِ ایجاد نہیں خواب آنکھوں نے بہت دیکھے، مگر یاد نہیں آج اسیروں میں وہ ہنگامۂ فریاد نہیں شاید اب کوئی گُلِستاں کا سَبق یاد نہیں سَرِ شورِیدہ سلامت ہے، مگر کیا کہیے! دستِ فرہاد نہیں، تیشۂ فرہاد نہیں توبہ بھی بُھول گئے عشق میں وہ مار پڑی ایسے اَوسان گئے ہیں کہ خُدا یاد...
  17. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::آشنا دست بر دُعا نہ ہُوا:::::: Shafiq-Khalish

    غزل آشنا دست بر دُعا نہ ہُوا دِل سے میرے ذرا جُدا نہ ہُوا ذکرِ عِشق اُن سے برمَلا نہ ہُوا پیار بڑھنے کا سِلسِلہ نہ ہُوا کیا کہُوں اُن کے عَزْم و وَعدوں کا! کُچھ بھی قَسموں پہ دَیرپا نہ ہُوا بَن کے راحت رہے خیالوں میں بس مِلَن کا ہی راستہ نہ ہُوا شے مِلی اِس سے، اَور کرنے کی! ظُلم پر جب بھی...
  18. طارق شاہ

    عدم عبدالحمید عدمؔ:::::خیرات صِرف اِتنی ملی ہے حَیات سے:::::Abdul -Hameed- Adam

    غزلِ عبد الحمید عدمؔ خیرات صِرف اِتنی ملی ہے حَیات سے پانی کی بُوند جیسے عطا ہو فرات سے شبنم اِسی جنُوں میں ازل سے ہے سِینہ کوب خورشید کِس مقام پہ مِلتا ہے رات سے ناگاہ عِشق وقت سے آگے نکل گیا اندازہ کر رہی ہے خِرد واقعات سے سُوئے ادب نہ ٹھہرے تو دیں کوئی مشورہ ہم مطمئن نہیں ہیں تِری کائنات...
  19. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::::ضرُور پُہنچیں گے منزل پہ ،کوئی راہ تو ہو:::::: Shafiq-Khalish

    غزل ضرُور پُہنچیں گے منزل پہ کوئی راہ تو ہو جَتن کو اپنی نظر میں ذرا سی چاہ تو ہو قیاس و خوف کی تادِیب و گوشمالی کو شُنِید و گُفت نہ جو روز، گاہ گاہ تو ہو یُوں مُعتَبر نہیں اِلزامِ بیوفائی کُچھ دِل و نَظر میں تسلّی کو اِک گواہ تو ہو سِسک کے جینے سے بہتر مُفارقت ہونَصِیب! سِتم سے اپنوں کے...
  20. طارق شاہ

    ادریس آزاد:::::یُوں بظاہر تو پَسِ پُشت نہ ڈالو گے ہَمَیں::::Idris Azad:

    غزل اِدریس آزاد یُوں بظاہر تو پَسِ پُشت نہ ڈالو گے ہَمَیں جانتے ہیں، بڑی عِزّت سے نِکالوگے ہَمَیں اپنا گھر بار ہے ابعادِ مکانی سے بُلند وقت کو ڈُھونڈنے نِکلوگے تو پالوگے ہَمَیں اِتنے ظالم نہ بَنو کُچھ تو مروّت سِیکھو تم پہ مرتے ہیں تو کیا مار ہی ڈالوگے ہَمَیں تم نہیں آئے، نہیں آئے، مگر سوچا...
Top