شکیل بدایونی :::: عبرت آموزِ محبّت یُوں ہُوا جاتا ہے دِل - Shakeel Badayuni

طارق شاہ

محفلین

غزل
شکیلؔ بدایونی

عبرت آموزِ محبّت، یُوں ہُوا جاتا ہے دِل

دیکھتی جاتی ہے دُنیا، ڈُوبتا جاتا ہے دِل

شاہدِ نظّارۂ عالَم ہُوا جاتا ہے دِل
آنکھ، جوکُچھ دیکھتی ہے، دیکھتا جاتا ہے دِل

حضرتِ ناصح! بَجا ترغیبِ خُود داری، مگر
اِس طَرِیقے سے کہِیں، قابُو میں آجاتا ہے دِل

حشر تک وہ اپنی دُنیا کو لئے بیٹھے رہے
لیجئے، اب اُن کی دُنیا سے ہٹا جاتا ہے دِل

اور کیا ہوتی بنائے عالَمِ دِیوانَگی
جب، فزوں ہوتا ہےغم، آنکھیں چُرا جاتا ہے دِل

آہ کرتا ہُوں، تو ہے اندیشۂ تشہِیرِ غم
ضبط کرتا ہُوں تو، بے قابو ہُوا جاتا ہے دِل

ہے ازل سے مرکزِ بربادئِ کامِل شکیلؔ
ہائے، جس شے کو محبّت میں کہا جاتا ہے دِل

شکیلؔ بدایونی

 
Top