شہزاد احمد چُپ کے عالَم میں وہ تصویر سی صُورت اُس کی

طارق شاہ

محفلین
غزل
شہزاؔد احمد
چُپ کے عالَم میں وہ تصویر سی صُورت اُس کی
بولتی ہے تو، بدل جاتی ہے رنگت اُس کی

سیڑھیاں چڑھتے اچانک وہ ملی تھی مجھ کو
اُس کی آواز میں موجود تھی حیرت اُس کی

ہاتھ چُھو لُوں تو لرز جاتی ہے پتّے کی طرح
وہی ناکردہ گناہی پہ ندامت اُس کی

کسی ٹھہری ہُوئی ساعت کی طرح مُہر بہ لب
مجھ سے دیکھی نہیں جاتی یہ اذیّت اُس کی

آنکھ رکھتے ہو تو اُس آنکھ کی تحریر پڑھو
منہ سے اِقرار نہ کرنا تو، ہے عادت اُس کی

خود وہ آغوش کُشادہ ہے جزیرے کی طرح
پھیلے دریاؤں کی مانند محبّت اُس کی

روشنی رُوح کی آتی ہےِ مگر چَھن چَھن کر
سُست رَو ابر کا ٹکڑا ہے طَبِیعت اُس کی

ہے ابھی لمس کا احساس مِرے ہونٹوں پر
ثبت پھیلی ہُوئی بانہوں پہ حرارت اُس کی

وہ اگر جا بھی چکی ہے تو نہ آنکھیں کھولو!
ابھی محسُوس کیے جاؤ رفاقت اُس کی

دِل دھڑکتا ہے تو وہ آنکھ بلاتی ہے مجھے !
سانس آتی ہے تو ملِتی ہے بشارت اُس کی

وہ کبھی آنکھ بھی جھپکے تو لرز جاتا ہُوں
مجھ کو اُس سے بھی زیادہ ہے ضرورت اُس کی

وہ کہیں جان نہ لے رَیت کا ٹیلہ ہُوں مَیں
میرے کاندھوں پہ ہے تعمِیر عمارت اُس کی

بے طَلب جینا بھی شہزاؔد طَلب ہے اُس کی
زندہ رہنے کی تمنّا بھی شرارت اُس کی

شہزادؔ احمد
 

محمداحمد

لائبریرین
سیڑھیاں چڑھتے اچانک وہ ملی تھی مجھ کو
اُس کی آواز میں موجود تھی حیرت اُس کی

کسی ٹھہری ہُوئی ساعت کی طرح مُہر بہ لب
مجھ سے دیکھی نہیں جاتی یہ اذیّت اُس کی

آنکھ رکھتے ہو تو اُس آنکھ کی تحریر پڑھو
منہ سے اِقرار نہ کرنا تو، ہے عادت اُس کی

وہ کبھی آنکھ بھی جھپکے تو لرز جاتا ہُوں
مجھ کو اُس سے بھی زیادہ ہے ضرورت اُس کی

بے طَلب جینا بھی شہزاؔد طَلب ہے اُس کی
زندہ رہنے کی تمنّا بھی شرارت اُس کی

کیا کہنے!
 
Top