طارق شاہ
محفلین
غزل
فراقؔ گورکھپُوری
دیکھنے والے تِرے آج بھی بیدار سے ہیں
آج بھی آنکھ لگائے رسن و دار سے ہیں
مُدّتیں قید میں گُذرِیں، مگر اب تک صیّاد
ہم اسِیرانِ قفس تازہ گرفتار سے ہیں
کیا کہیں وہ تِرے اقرار، کہ اقرار سے تھے
کیا کریں یہ تِرے انکار، کہ انکار سے ہیں
کُچھ نہ جِینے میں ہی رکّھا ہے، نہ مرجانے میں
کام جتنے بھی محبّت کے ہیں، بیکار سے ہیں
تُو تو نادم نہ کر، اے یار! کہ تُجھ پر مِٹ کے
خودہم اپنی ہی نگاہوں میں گُنہگار سے ہیں
کہہ دِیا تُو نے جو معصُوم، تو معصُوم ہیں ہم
کہہ دِیا تُو نے گُنہگار، گُنہگار سے ہیں
سرفروشانِ محبّت پہ ہیں احساں تیرے
تیرے ہاتھوں یہ سُبک دَوش، گراں بار سے ہیں
آہ ! یہ اِتنے دِنوں بعد تِری پُرسِشِ غم
شِکوے اِک عُمر کے، اپنے دلِ بیزار سے ہیں
فراقؔ گورکھپُوری
(رگھوپتی سہائے)
1982 - 1896
فراقؔ گورکھپُوری
دیکھنے والے تِرے آج بھی بیدار سے ہیں
آج بھی آنکھ لگائے رسن و دار سے ہیں
مُدّتیں قید میں گُذرِیں، مگر اب تک صیّاد
ہم اسِیرانِ قفس تازہ گرفتار سے ہیں
کیا کہیں وہ تِرے اقرار، کہ اقرار سے تھے
کیا کریں یہ تِرے انکار، کہ انکار سے ہیں
کُچھ نہ جِینے میں ہی رکّھا ہے، نہ مرجانے میں
کام جتنے بھی محبّت کے ہیں، بیکار سے ہیں
تُو تو نادم نہ کر، اے یار! کہ تُجھ پر مِٹ کے
خودہم اپنی ہی نگاہوں میں گُنہگار سے ہیں
کہہ دِیا تُو نے جو معصُوم، تو معصُوم ہیں ہم
کہہ دِیا تُو نے گُنہگار، گُنہگار سے ہیں
سرفروشانِ محبّت پہ ہیں احساں تیرے
تیرے ہاتھوں یہ سُبک دَوش، گراں بار سے ہیں
آہ ! یہ اِتنے دِنوں بعد تِری پُرسِشِ غم
شِکوے اِک عُمر کے، اپنے دلِ بیزار سے ہیں
فراقؔ گورکھپُوری
(رگھوپتی سہائے)
1982 - 1896