firaq gorakhpuri

  1. طارق شاہ

    فراق ::::گُلِ فردوس کِھلتے ہیں بَہرگام:::: Firaq Gorakhpuri

    غزل فراقؔ گورکھپوری خرامِ نازِ لیلائے گُل اندام گُلِ فردوس کِھلتے ہیں بَہرگام ِتری اوقات کیا، اے عِشقِ ناکام! اِک آہِ بے اثر، اِک دردِ بے نام حیاتِ بے محبّت، سر بَسر موت محبّت زندگی کا دوسرا نام ذرا اِک گردشِ چشم اور ، ساقی! بہت انگڑائی لیتے ہیں مئے آشام بدل جاتی ہے دُنیا اس کو سُن کر...
  2. طارق شاہ

    فراق گورکھپُوری:::: دیکھنے والے تِرے آج بھی بیدار سے ہیں ::::Firaq -Gorakhpuri

    غزل فراقؔ گورکھپُوری دیکھنے والے تِرے آج بھی بیدار سے ہیں آج بھی آنکھ لگائے رسن و دار سے ہیں مُدّتیں قید میں گُذرِیں، مگر اب تک صیّاد ہم اسِیرانِ قفس تازہ گرفتار سے ہیں کیا کہیں وہ تِرے اقرار، کہ اقرار سے تھے کیا کریں یہ تِرے انکار، کہ انکار سے ہیں کُچھ نہ جِینے میں ہی رکّھا ہے، نہ مرجانے...
  3. طارق شاہ

    فراق گورکھپُوری:::: یُوں تو نہ چارہ کار تھا جان دِیے بغیر بھی ::::Firaq -Gorakhpuri

    غزل فراقؔ گورکھپُوری یُوں تو نہ چارہ کار تھا جان دِیے بغیر بھی عُہدہ بَرا نہ ہوسکا عِشق جیے بغیر بھی دیکھ یہ شامِ ہجر ہے، دیکھ یہ ہے سکُونِ یاس کاٹتے ہیں شَبِ فِراق صُبح کیے بغیر بھی گو کہ زباں نہیں رُکی، پِھر بھی نہ کُچھ کہا گیا دیکھ سکُوتِ عِشق آج، ہونٹ سیے بغیر بھی تیرے نِثار ساقیا...
  4. طارق شاہ

    فراق گورکھپُوری::::جنُونِ کارگر ہے، اور مَیں ہُوں ! ::::Firaq -Gorakhpuri

    غزل فراقؔ گورکھپُوری جنُونِ کارگر ہے، اور مَیں ہُوں حیاتِ بے خَبر ہے، اور مَیں ہُوں مِٹا کر دِل، نِگاہِ اوّلیں سے! تقاضائے دِگر ہے، اور مَیں ہُوں مُبارک باد ایّامِ اسِیری! غمِ دِیوار و در ہے، اور مَیں ہُوں تِری جمعیّتیں ہیں، اور تُو ہے حیاتِ مُنتشر ہے، اور مَیں ہُوں ٹِھکانا ہے کُچھ اِس...
  5. طارق شاہ

    فراق گورکھپُوری::::دہنِ یار یاد آتا ہے ! :::: Firaq -Gorakhpuri

    غزل فراقؔ گورکھپُوری دہنِ یار یاد آتا ہے غُنچہ اِک مُسکرائے جاتا ہے رہ بھی جاتی ہے یاد دشمن کی دوست کو دوست بُھول جاتا ہے پَیکرِ ناز کی دَمک، جیسے کوئی دِھیمے سُروں میں گاتا ہے جو افسانہ وہ آنکھ کہتی ہے وہ کہِیں ختم ہونے آتا ہے دلِ شاعر میں آمدِ اشعار جیسے تُو سامنے سے جاتا ہے مَیں تو...
  6. طارق شاہ

    فراق ::::مشیّت برطرف کیوں حالتِ اِنساں بَتر ہوتی! :::: Firaq -Gorakhpuri

    فِراقؔ گورکھپُوری مشیّت برطرف کیوں حالتِ اِنساں بَتر ہوتی نہ خود یہ زندگی ہی زندگی دشمن اگر ہوتی یہ کیا سُنتا ہُوں جنسِ حُسن مِلتی نقدِ جاں دے کر ارے اِتنا تو ہم بھی دے نِکلتے جو خبر ہوتی دھمک سی ہونے لگتی ہے ہَوائےگُل کی آہٹ پر قفس میں بُوئے مستانہ بھی وجہِ دردِ سر ہوتی کہاں تک راز کے صیغہ...
Top