طارق شاہ

محفلین
غزل
فراقؔ گورکھپُوری

جنُونِ کارگر ہے، اور مَیں ہُوں
حیاتِ بے خَبر ہے، اور مَیں ہُوں

مِٹا کر دِل، نِگاہِ اوّلیں سے!
تقاضائے دِگر ہے، اور مَیں ہُوں

مُبارک باد ایّامِ اسِیری!
غمِ دِیوار و در ہے، اور مَیں ہُوں

تِری جمعیّتیں ہیں، اور تُو ہے
حیاتِ مُنتشر ہے، اور مَیں ہُوں

ٹِھکانا ہے کُچھ اِس عُذرِ سِتَم کا!
تِری نیچی نَظر ہے، اور مَیں ہُوں

فِراقؔ! ایک ایک حسرت مِٹ رہی ہے
یہ ماتم رات بھر ہے، اور مَیں ہُوں

فِراقؔ گورکھپُوری
(رگھُوپتی سہائے)
1982 -1896
 
Top