فراق گورکھ پوری

  1. سیما علی

    فراق آئی ہے کچھ نہ پوچھ قیامت کہاں کہاں

    آئی ہے کچھ نہ پوچھ قیامت کہاں کہاں اف لے گئی ہے مجھ کو محبت کہاں کہاں بیتابی و سکوں کی ہوئیں منزلیں تمام بہلائیں تجھ سے چھٹ کے طبیعت کہاں کہاں فرقت ہو یا وصال وہی اضطراب ہے تیرا اثر ہے اے غم فرقت کہاں کہاں ہر جنبش نگاہ میں صد کیف بے خودی بھرتی پھرے گی حسن کی نیت کہاں کہاں راہ طلب میں چھوڑ...
  2. طارق شاہ

    فراق گورکھپُوری::::جنُونِ کارگر ہے، اور مَیں ہُوں ! ::::Firaq -Gorakhpuri

    غزل فراقؔ گورکھپُوری جنُونِ کارگر ہے، اور مَیں ہُوں حیاتِ بے خَبر ہے، اور مَیں ہُوں مِٹا کر دِل، نِگاہِ اوّلیں سے! تقاضائے دِگر ہے، اور مَیں ہُوں مُبارک باد ایّامِ اسِیری! غمِ دِیوار و در ہے، اور مَیں ہُوں تِری جمعیّتیں ہیں، اور تُو ہے حیاتِ مُنتشر ہے، اور مَیں ہُوں ٹِھکانا ہے کُچھ اِس...
  3. طارق شاہ

    فراق فراقؔ گورکھپُوری:::::نِگاہِ ناز نے پردے اُٹھائے ہیں کیا کیا:::::Firaq Gorakhpuri

    غزل فراقؔ گورکھپوری نِگاہِ ناز نے پردے اُٹھائے ہیں کیا کیا حجاب اہلِ محبّت کو آئے ہیں کیا کیا جہاں میں تھی بس اِک افواہ تیرے جلوؤں کی چراغِ دیر و حَرَم جِھلِملائے ہیں کیا کیا نثار نرگسِ مے گُوں، کہ آج پیمانے! لبوں تک آتے ہُوئے تھر تھرائے ہیں کیا کیا کہیں چراغ، کہیں گُل، کہیں دِلِ برباد خِرامِ...
  4. محمد عادل عزیز

    فراق سکوتِ شام مٹاو بہت اندھیرا ہے

    سکوتِ شام مٹاو بہت اندھیرا ہے سخن کی شمع جلاو بہت اندھیرا ہے دیارِ غم میں دل بیقرار چھوٹ گیا سنبھل کے ڈھونڈنے جاو بہت اندھیرا ہے یہ رات وہ کہ سوجھے جہاں نہ ہاتھ کو ہاتھ خیالو، دور نہ جاو بہت اندھیرا ہے لَٹوں کو چہرے پہ ڈالے وہ سو رہا ہے کہیں ضیائے رخ کو چراو بہت اندھیرا ہے ہوائیں نیم شبی ہوں...
  5. محمد علم اللہ

    دہلی سے گورکھپور کا سفرنامہ

    برائے تنقید و تبصرہ محمد علم اللہ اصلاحی مختلف جگہوں کی سیر کا شوق یوں تو مجھے بہت ہے ،مگر مصروف زندگی میں اس کا موقع کم ہی مل پاتا ہے اور اگر مل جائے تو اسے غنیمت جانتے ہوئے سیرو فی الارض کے حکم کے تحت نکل کھڑا ہوتا ہوں۔30نومبر 2013 سے2 دسمبر 2013تک گورکھپور کا یہ سفر بھی کچھ اسی نوعیت کا تھا...
  6. عاطف سعد

    سکوتِ شام مٹاؤ بہت اندھیرا ہے - فراق گورکھپوری

    السلام علیکم
  7. کاشفی

    فراق نوائے فراق - فراق گورکھ پوری

    نوائے فراق فراق گورکھ پوری یہ شوخیء نگاہ کسی پر عیاں نہیں تاثیرِ دردِ عشق کہاں ہے کہاں نہیں عشق اس طرح مٹا کہ عدم تک نشاں نہیں آ سامنے کہ میں بھی تو اب درمیاں نہیں مجھ کو بھی اپنے حال کا وہم و گماں نہیں تم راز داں نہیں تو کوئی راز داں نہیں صیّاد اس طرح تو فریبِ سکوں نہ دے اس درجہ تو...
Top