فراق فراقؔ گورکھپُوری:::::نِگاہِ ناز نے پردے اُٹھائے ہیں کیا کیا:::::Firaq Gorakhpuri

طارق شاہ

محفلین



غزل
فراقؔ گورکھپوری
نِگاہِ ناز نے پردے اُٹھائے ہیں کیا کیا
حجاب اہلِ محبّت کو آئے ہیں کیا کیا

جہاں میں تھی بس اِک افواہ تیرے جلوؤں کی
چراغِ دیر و حَرَم جِھلِملائے ہیں کیا کیا

نثار نرگسِ مے گُوں، کہ آج پیمانے!
لبوں تک آتے ہُوئے تھر تھرائے ہیں کیا کیا

کہیں چراغ، کہیں گُل، کہیں دِلِ برباد
خِرامِ ناز نے فتنے اُٹھائے ہیں کیا کیا

تغافُل اور بڑھا، اُس غزالِ رعنا کا
فسُونِ غم نے بھی جادُو جگائے ہیں کیا کیا

نظر بچا کے تِرے عِشوہ ہائے پِنہاں نے
دِلوں میں دردِ محبّت اُٹھائے ہیں کیا کیا

پیامِ حُسن، پیامِ جنُوں، پیامِ فنا
تِری نِگہ نے فسانے سُنائے ہیں کیا کیا

تمام حُسن کے جلوے، تمام محرُومی
بَھرَم نِگاہ نے اپنے گنائے ہیں کیا کیا

فراقؔ! راہِ وَ فا میں سُبک رَوِی تیری
بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا

فراقؔ گورکھپوری
(رگھوپتی سہائے)

1982 -1896

 
Top