فراق سکوتِ شام مٹاو بہت اندھیرا ہے

سکوتِ شام مٹاو بہت اندھیرا ہے
سخن کی شمع جلاو بہت اندھیرا ہے

دیارِ غم میں دل بیقرار چھوٹ گیا
سنبھل کے ڈھونڈنے جاو بہت اندھیرا ہے

یہ رات وہ کہ سوجھے جہاں نہ ہاتھ کو ہاتھ
خیالو، دور نہ جاو بہت اندھیرا ہے

لَٹوں کو چہرے پہ ڈالے وہ سو رہا ہے کہیں
ضیائے رخ کو چراو بہت اندھیرا ہے

ہوائیں نیم شبی ہوں کہ چادرِ انجم
نقاب رخ سے اُٹھاو بہت اندھیرا ہے

شبِ سیاہ میں گم ہو گئی ہے راہِ حیات
قدم سنبھل کے اُٹھاو بہت اندھیرا ہے

گذشتہ عہد کی یادوں کو پھر کروں تازہ
بجھے چراغ جلاو بہت اندھیرا ہے

تھی اک اچکتی ہوئی نیند زندگی اس کی
فراق کو نہ جگاو بہت اندھیرا ہے
 
Top