طارق شاہ
محفلین
غزل
صفؔی لکھنوی
ذرّے ذرّے میں ہے جلوہ تِری یکتائ کا
دِلِ اِنساں میں، جو ہو شوق شناسائ کا
موت ہی قصد نہ کرتی جو مسیحائ کا
کون پُرساں تھا مَرِیضِ شَبِ تنہائ کا
میری خوشبُو سے ہیں، آزاد ہَوائیں لبریز
عطرِ دامن ہُوں قبائے گُلِ صحرائ کا
تا سَحر چشمِ تصوُّر میں رہی اِک تصوِیر
دِل سے ممنُون ہُوں اپنی شَبِ تنہائ کا
جوش ہے حُسن کے دریا کا، کہ طُوفانِ شباب
دِلکش انداز کسی شوخ کی انگڑائ کا
نِکلی جاتی ہے صفیؔ پاؤں کے نیچے سے زَمِیں
ورنہ مَیں اور جُنُوں بادیہ پیمائ کا
صفؔی لکھنوی
1862-1950
انڈیا