غزل
کب زیست منحرف تھی یوُں اپنے مدار سے
وابستہ اِک اُمید نہ جانِ بہار سے
بھاگ آئے دُور دیس ہم اپنے دِیار سے
باقی نہ کچھ کسی پہ رہے اعتبار سے
مطلق ہماری ذات پہ راغب ہی جو نہ ہوں!
کیوں مانگتے ہیں ہم اُنھیں پروردگار سے
خواہش ہماری کوئی بھی پُوری نہیں ہُوئی
یہ تک کہ کاش مر بھی چُکیں ایک بار سے...
غزل
خاموش و درگزر کی مری عادتوں کے بعد
نادم تو وہ ر ہے تھے دِیے تہمتوں کے بعد
پہچان کچھ نِکھر سی گئی شدّتوں کے بعد
کندن ہُوئے ہیں غم سے جُڑی حدّتوں کے بعد
دستک ہُوئی یہ کیسی درِ در گزر پہ آج
شعلہ سا ایک لپکا بڑی مُدّتوں کے بعد
حیراں ہمارے صبر پہ احباب تک ہُوئے
راس آئے درد وغم ہمیں جب شدّتوں...
غزل
کہو تو ہم سے کہ آخر ہمارے کون ہو تم
دل و دماغ ہیں تابع تمھارے، کون ہو تم
جو آکے بیٹھ گئے ہو مکین و مالک سا
دل و جگر میں محبت اُتارے کون ہو تم
خیال و خواب میں خوش کن جمالِ خُوب لیے
بسے ہو زیست کے بن کر سہارے کون ہو تم
تمھاری ذات سے منسُوب و منسلک سے رہیں
اُمید و بِیم کے سارے اِشارے کون ہو...
غزل
اِک بھی الزام بدگماں پہ نہیں
بس کرم رب کا بے اماں پہ نہیں
ذکر لانا ہی اب زباں پہ نہیں
فیصلہ سُود اور زیاں پہ نہیں
دسترس یوُں بھی داستاں پہ نہیں
اِختیار اُن کے رازداں پہ نہیں
کیا جوانی تھی شہر بھر سے لئے
اِک ہجوم اب جو آستاں پہ نہیں
کچھ تو دِل اپنا فیصلوں کا مجاز !
کچھ بھروسہ بھی آسماں...
غزل
تقابل کسی کا ہو کیا نازبُو سے
نہیں اِک مشابہ مری خُوبرُو سے
کہاں باز آئے ہم اِک آرزو سے !
نکھرتے مہکتے ترے رنگ و بُو سے
ہُوا کچھ نہ حاصل تری جستجو سے
رہے پیرہن تر ہم اپنے لہو سے
اِطاعت، بغاوت میں ڈھل جائے اکثر
نتیجہ نہ حاصل ہو جب گفتگو سے
پیامِ بہم روشنی کی کرن ہے!
ہٹے نا اُمیدی بھی...
پیدا ہوں حُسن ہی سے سب اجزائے زندگی
دھڑکیں دِلوں میں شوق و تمنائے زندگی
مشکل ہی میں پڑی رہے ہر جائے زندگی
جدوجہد میں ڈر ہے نہ کٹ جائے زندگی
پیری میں حل ہو خاک کہ طاقت نہیں رہی!
ٹھہرا نہ سہل مجھ پہ مُعمّائے زندگی
فرطِ خوشی کا جن سے کہ احساس دِل کو ہو
ایسے تمام چہرے ہیں گُلہائے زندگی
وہ حُسن...
غزل
فیصلہ کرلے اگر وہ پیش و پس ہوتا نہیں
اِلتجاؤں پر بھی میری ٹس سے مس ہوتا نہیں
ہے گِلہ سب سےحضُور اُن کے کئے ہر عرض پر!
کیوں مَیں دوزانوں مُقابل اِس برس ہوتا نہیں
یا الٰہی اپنی رحمت سے دِل اُس کا پھیر دے
لاکھ کوشش پر جو زیرِ دسترس ہوتا نہیں
کوئی تو، اُن کے تکبّر پر کہے اُن سے ذرا
ایسی...
غزل
کم سِتم اُن پہ جب شباب آیا
ذوق و شوق اپنے پر عتاب آیا
کیا کہیں کم نہ کچھ عذاب آیا
درمیاں جب سے ہے حجاب آیا
تب سِتم اُن کے کب شمُار میں تھے
پیار جب اُن پہ بے حساب آیا
منتظر ہم تھے گفتگو کے ، مگر
ساتھ لے کر وہ اجتناب آیا
خُونِ دل سے لکھا جو مَیں نے اُسے!
مثبت اُس کا کہاں...
سلام
تا حشر ہوگئی وہ عبادت حُسیؑن کی
بے مثل راہ ِ حق میں شہادت حُسیؑن کی
برکت غمِ حُسیؑن میں روزافزوں یوُں نہیں
مقصد سے کی خُدا نے وِلادت حُسیؑن کی
تقلِید پروَرِش میں تھی ماؤں کی کُچھ نہ کم
آئی کہاں کسی میں سعادت حُسیؑن کی
عباسؑ جاں نِثار، نہ آئے َپلٹ کے جب!
ناناؐ نے غم میں کی تھی عیادت...
غزل
شیوۂ یار ہے اب دِل کو ستائے رکھنا
چاند چہرہ مِری نظروں سے چھپائے رکھنا
اُس کی تصوِیر کو سینے سے لگائے رکھنا
غمزدہ دِل کو کسی طور لُبھائے رکھنا
چاندنی راتوں میں یاد آئے ضرُور اب اُن کا
اِک قیامت سی، سرِ بام اُٹھائے رکھنا
ولوَلے ہیں، نہ کِرن ہی کوئی اُمّید کی ہے !
اِس بُجھے دِل میں...
عِشق کی دُھول میں جو اَٹ جائے
دو جہاں میں وہ جیسے بٹ جائے
ہو زباں کو بس ایک نام کا وِرد
یوں کسی کو نہ کوئی رٹ جا ئے
رات کب عافیت سے ٹلتی ہے
مُضطرب دِن جو ہم سے کٹ جائے
خوش خیالی کہَیں وہ ساتھ اپنا
ابرِ اُمِّید اب تو چَھٹ جائے
پائی مُدّت سے ہےنہ خیر و خبر
ذہنِ مرکوُز کُچھ تو بٹ جائے
تب...
ہستی کو تیرے پیار نے بادل بنادِیا
نظروں میں لیکن اوروں کی پاگل بنادِیا
اعزاز یہ ازل سے ہے تفوِیضِ وقت کہ
ہر یومِ نَو کو گُذرا ہُوا کل بنادِیا
اب تشنگی کا یُوں مجھے احساس تک نہ ہو
دِل ہی تمھاری چاہ کا چھاگل بنادِیا
جا حُسنِ پُرشباب پہ ٹھہرے وہیں نِگاہ !
نظروں کو شوقِ دِید نے ،آنچل بنادِیا...
اب کی چلی وطن میں ہَوا کِس طرف کی ہے
پھیلی نویدِ صُبحِ جزا کِس طرف کی ہے
ہو احتساب اگر تو بِلا امتیاز ہو!
مغرب کی گر نہیں تو وَبا کِس طرف کی ہے
محفِل عدُو کے گھر سی ہے غُربت کدہ پہ بھی !
نیّت ، اے جانِ بزم! بتا کِس طرف کی ہے
احساس و عقل سے جو تِری بالا تر ہے تو
"مٹّی اُڑا کے دیکھ ہَوا کِس...
غزل.
اِسم تبدیلی سے کیا ہوتا ہے
عیب کب اِس سے چھپا ہوتا ہے
اچھے اوصاف ہوں سب پر ظاہر
جُھوٹ بھی سب پہ کُھلا ہوتا ہے
بات بے بات ہو تقرار جہاں
جہل پہ جہل ڈٹا ہو تا ہے
باز گشت اپنی سماعت پہ گراں
دہنِ جاہل کا رَٹا ہوتا ہے
وہ بھی کیا شخص ہے محِفل میں، خلؔش !
مَیں ہی قابل ، پہ ڈٹا ہوتا ہے...
غزل.
مُمکن ہے اِلتجا میں ہماری اثر نہ ہو
ایسا نہیں کہ اُس کو ہماری خبر نہ ہو
خاک ایسی زندگی پہ کہ جس میں وہ بُت، مِرے
خواب و خیال میں بھی اگر جلوہ گر نہ ہو
وہ حُسن ہے سوار کُچھ ایسا حواس پر!
خود سے توکیا، اب اوروں سے ذکرِ دِگر نہ ہو
ہو پیش رفت خاک، مُلاقات پر ہی جب!
کھٹکا رہے یہ دِل میں...
غزل
بے اعتناعی کی بڑھتی ہُوئی سی یہ تابی
کہیں نہ جھونک دے ہم کو بجنگِ اعصابی
گئی نظر سے نہ رُخ کی تِری وہ مہتابی
لیے ہُوں وصل کی دِل میں وہ اب بھی بیتابی
مَیں پُھول بن کے اگر بُت سے اِک لِپٹ بھی گیا
زیادہ دِن تو میّسر رہی نہ شادابی
مِری نمُود و نمائش ہے خاک ہی سے ، مگر
سکُھا کے خاک...
غزل
نہیں کہ پیار ، محبّت میں کاربند نہیں
بس اُس کی باتوں میں پہلے جو تھی وہ قند نہیں
نظر میں میری ہو خاطر سے کیوں گزند نہیں
خیال و فکر تک اُس کے ذرا بُلند نہیں
کب اپنے خواب و تمنّا میں کامیاب رہے
ہم ایک وہ جو کسی مد میں بہرہ مند نہیں
تمام زیور و پازیب ہم دِلا تو چکے!
ملال پِھر بھی ،کہ...
راہ ِحق میں ہُوئے لڑکر ،کبھی مر کر لاکھوں
زندہ جاوید ہر اِک دیس کے گھر گھر لاکھوں
ہو محبّت کے خزانے میں کہاں کُچھ بھی کمی!
چاہے دامن لئےجاتے رہیں بھر بھر لاکھوں
کوچۂ یار کومیلے کا سماں دیتے ہیں
اِک جَھلک دِید کی خواہش لئے دِن بھر لاکھوں
کردے مرکوُز جہاں بَھر کی نِگاہیں خود پر
چاند پِھر...
غزل
تھی نہ قسمت میں مِری ،ذات وہ ہرجائی کی
ایک نسبت تھی بلا وجہ کی رُسوائی کی
راہیں مسدُود رہیں اُن سے شَناسائی کی
دِل کی دِل ہی میں رہی ساری تمنائی کی
باعثِ فخر ، یُوں نسبت رہی رُسوائی کی
تہمتوں کی بھی ، دِل و جاں سے پزِیرائی کی
کوشِشیں دَر کی، کبھی کام نہ آنے دیں گی!
وُسعتیں دشت سی...
یادوں سے سیلِ غم کو ہیں آنکھوں میں روکے ہم
کب بھُولے، زندگی سے محبّت کے بوسے ہم
دیکھیں برستی آگ لبِ نغمہ گو سے ہم
حیراں ہیں گفتگو کو مِلی طرزِ نَو سے ہم
سب دوست، آشنا جو تھے تاتاری بن گئے
آئے وطن، تو بیٹھے ہیں محبوس ہوکے ہم
اپنی روایتوں کا ہَمَیں پاس کب رہا !
کرتے شُمار خود کو ہیں اِس...