شفیق خلش :::::: اب کی چلی وطن میں ہَوا کِس طرف کی ہے ::::::Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین


اب کی چلی وطن میں ہَوا کِس طرف کی ہے
پھیلی نویدِ صُبحِ جزا کِس طرف کی ہے

ہو احتساب اگر تو بِلا امتیاز ہو!
مغرب کی گر نہیں تو وَبا کِس طرف کی ہے

محفِل عدُو کے گھر سی ہے غُربت کدہ پہ بھی !
نیّت ، اے جانِ بزم! بتا کِس طرف کی ہے

احساس و عقل سے جو تِری بالا تر ہے تو
"مٹّی اُڑا کے دیکھ ہَوا کِس طرف کی ہے"

ہے اِک طرف خُدا تو صنم دوسری طرف
کیسے کہوں کہ کھینچے صدا کِس طرف کی ہے

دشمن کہ دوست، چارہ گری میں سب ایک سے
زخموں کو کیا غرض کہ دَوا کِس طرف کی ہے

ہو کُچھ تو فاصلہ سا خلؔش زیست و مرگ میں
بُوجھیں تو، رہگُزر یہ فضا کِس طرف کی ہے

شفیق خلؔش
 
Top