شفیق خلش

  1. طارق شاہ

    شفیق خلش :::: کچھ نہ ہم کو سُجھائی دیتا ہے :::: Shafiq Khalish

    غزل کچھ نہ ہم کو سُجھائی دیتا ہے ہر طرف وہ دِکھائی دیتا ہے خود میں احساس اب لئے اُن کا لمحہ لمحہ دِکھائی دیتا ہے ہوگئے خیر سے جواں ہم بھی گُل بھی کیا گُل دِکھائی دیتا ہے دسترس میں ہے کُچھ نہیں پھر بھی اُونچا اُونچا سُجائی دیتا ہے کب محبّت میں سُرخ رُو ہونا اپنی قسمت دِکھائی دیتا...
  2. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: آئیں اگر وہ یاد تو مرتے نہیں ہیں ہم :::::: Shafiq Khalish

    غزل آئیں اگر وہ یاد تو مرتے نہیں ہیں ہم حالت خراب دِل کی گو کرتے کہیں ہیں کم دِل خُون ہے اگرچہ شب و روز ہجر میں آنکھوں کو اپنی شرم سے کرتے نہیں ہیں نم ایسا بُجھادِیا ہَمَیں فُرقت کی دُھوپ نے کوشِش رہے ہزار نِکھرتے کہیں ہیں ہم اِک پَل نہ ہوں گوارہ کسی طور یُوں ہَمَیں دِل پر سوار ہو کے...
  3. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: جیسی چاہی تھی مُلاقات نہ ہونے پائی ! :::::: Shafiq Khalish

    غزل جیسی چاہی تھی مُلاقات نہ ہونے پائی آج پِھر اُن سے مِری بات نہ ہونے پائی بِکھرے بِکھرے ہی رہے مجھ میں مِرے خواب و خیال ! مجتمع مجھ سے مِری ذات نہ ہونے پائی ضبط نے پھوڑے اگرچہ تھے پھپھولے دِل کے شُکر آنکھوں سے وہ برسات نہ ہونے پائی سر پہ ہر وقت چمکتا رہا میرے سُورج دِن گُزرتے گئے اِک رات...
  4. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: سائے ہیں بادلوں کے وہ، چَھٹتے نہیں ذرا :::::: Shafiq Khalish

    شفیق خلش غزل سائے ہیں بادلوں کے وہ، چَھٹتے نہیں ذرا لا لا کے غم سروں پہ یہ، تھکتے نہیں ذرا کیسے قرار آئے دلِ بے قرار کو گھر سے اب اپنے وہ، کہ نکلتے نہیں ذرا کیا وہ بچھڑگئے، کہ خُدائی بچھڑ گئی دُکھ اب ہماری ذات کے بٹتے نہیں ذرا سُوجھے کوئی نہ بات ہَمَیں آپ کے بغیر موسم تخیّلوں کے بدلتے نہیں...
  5. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::::ابھی کُچھ ہیں مِلنے کو باقی سزائیں!:::::: Shafiq Khalish

    ابھی کُچھ ہیں مِلنے کو باقی سزائیں وہ گِنتے ہیں بیٹھے ہماری خطائیں نہیں آتے پل کو جو پہروں یہاں تھے اثر کھو چُکی ہیں سبھی اِلتجائیں زمانہ ہُوا چھوڑ آئے وطن میں نظر ڈُھونڈتی ہے اب اُن کی ادائیں مِرے خونِ ناحق پہ اب وہ تُلے ہیں جو تھکتے نہ تھے لے کے میری بَلائیں خَلِشؔ تم زمیں کے، وہ ہیں...
  6. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: تمھاری، دِل میں محبّت کا یُوں جواب نہیں! :::::: Shafiq Khalish

    غزل تمھاری، دِل میں محبّت کا یُوں جواب نہیں کہ اِس سے، ہم پہ مؤثر کوئی عذاب نہیں ہزاروں پُوجے مگر بُت کوئی نہ ہاتھ آیا تمام عُمْر عبادت کا اِک ثواب نہیں اُمیدِ وصْل سے قائم ہیں دھڑکنیں دِل کی وگرنہ ہجر میں ایسا یہ کم کباب نہیں سِوائے حُسن کسی شے کی کب اِسے پروا ہمارے دِل سے بڑا دہرمیں...
  7. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::::عذابِ زِیست کی سامانیاں نہیں جاتیں !:::::: Shafiq Khalish

    غزل عذابِ زِیست کی سامانیاں نہیں جاتیں مِری نظر سے وہ رعنائیاں نہیں جاتیں بچھڑ کے تجھ سے بھی پرچھائیاں نہیں جاتیں جو تیرے دَم سے تھیں شُنوائیاں، نہیں جاتیں گو ایک عُمر جُدائی میں ہو گئی ہے بَسَر خیال وخواب سے انگڑائیاں نہیں جاتیں مُراد دِل کی بھی کوئی، کہاں سے بھرآئے جب اِس حیات سے ناکامیاں...
  8. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: جتنے کم مجھ سے مُلاقات کے اِمکاں ہونگے :::::: Shafiq Khalish

    غزل جتنے کم مجھ سے مُلاقات کے اِمکاں ہونگے اُتنا اُتنا ہی، وہ مِلنے کو پریشاں ہونگے ہیں فقط ہم ہی نہیں دِید کے طالِب اُس کے ! گھر سے نِکلیں جو کبھی جان کے حیراں ہونگے ہر قدم اُس کو دِلائے گا مِرا ہی احساس اُس کی راہوں میں بِچھے یُوں مِرے ارماں ہونگے پھر بہار آئی گی، اور پھر مِری یادیں...
  9. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: دبائے دانتوں میں اپنی زبان بیٹھے ہیں:::::: Shafiq Khalish

    غزل دبائے دانتوں میں اپنی زبان بیٹھے ہیں ہم اُن سے کچھ نہ کہیں گے یہ ٹھان بیٹھے ہیں رہِ غزال میں باندھے مچان بیٹھے ہیں ہم آزمانے کو قسمت ہی آن بیٹھے ہیں کُشادہ دل ہیں، سِتم سے رہے ہیں کب خائف کریں وہ ظُلم بھی ہم پرجو ٹھان بیٹھے ہیں نہیں ہے اُن سے ہماری کوئی شناسائی گلی میں شوقِ تجلّی میں...
  10. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: روز و شب کا رہا خیال نہیں!:::::: Shafiq Khalish

    روز و شب کا رہا خیال نہیں! کیوں یُوں گذریں کا بھی ملال نہیں اک تنومند ہے شجر دُکھ کا غم مِرا، اب غمِ نہال نہیں لوگ پُوچھیں ہیں نام تک اُس کا صرف افسُردگی سوال نہیں کچھ بھی کہنا کہاں ہے کچھ مُشکل کچھ کہوں دِل کی، یہ مجال نہیں لوگ ہنستے ہیں حال پر جو مِرے میں بھی ہنستا ہوں کیا کمال نہیں آ...
  11. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::: جان لینے کو یہ احساس کہِیں کُچھ کم ہے ::::: Shafiq Khalish

    غزل جان لینے کو یہ احساس کہِیں کُچھ کم ہے پیار مجھ سے تمھیں پہلا سا نہیں، کُچھ کم ہے زیست، کب اُس کے تخیّل سے حَسیں کُچھ کم ہے اب بھی صُورت ہے وہی دِل کے قرِیں، کُچھ کم ہے اُن پہ دعویٰ ،کہ ہیں پریوں سے حَسِیں، کُچھ کم ہے کون کہہ سکتا ہے حُوروں سی نہیں، کُچھ کم ہے رُخِ سیماب پہ...
  12. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلؔش ::::: یوں زندگی میں ہم سے کوئی کام بھی تو ہو ::::: Shafiq Khalish

    غزل یوں زندگی میں ہم سے کوئی کام بھی تو ہو مائل بہ عِشق جس سے دِل آرام بھی تو ہو اُن تک سفر کا میرے اب انجام بھی تو ہو کچھ تگ و دو یہ باعثِ اِنعام بھی تو ہو دُشنام گو لَبوں پہ خَلِش نام بھی تو ہو! عاشِق ہو تم، تو شہرمیں بدنام بھی تو ہو پتّھر برس رہے ہوں کہ ہو موت منتظر اُن کا، گلی میں آنے...
  13. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::: جب اُس نظر میں بھی بیگانگی سی ہوتی ہے::::: Shafiq Khalish

    غزل شفیق خلؔش تب اَوج پر مِری واماندگی سی ہوتی ہے جب اُس نظر میں بھی بیگانگی سی ہوتی ہے پِھر روز و شب لِئے افسُردگی سی ہوتی ہے بس اُس کے مِلنے پہ آسودگی سی ہوتی ہے ترس رہے ہیں ذرا سی ہنسی، خوشی کے لیے کہ زندگی بھی نہ اب زندگی سی ہوتی ہے دِیا سُخن کو نیا رنگ تیری فُرقت نے اب بول چال میں...
  14. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: مِسمار کرنے آئی مِری راحتوں کے خواب:::::: Shafiq Khalish

    غزل مِسمار کرنے آئی مِری راحتوں کے خواب تعبیر وسوَسے لئے سب چاہتوں کے خواب دِل کے یقینِ وصل کو پُختہ کریں کُچھ اور ہرشب ہی ولوَلوں سے بھرے ہمّتوں کے خواب پَژمُردہ دِل تُلا ہے مِٹانے کو ذہن سے اچّھی بُری سبھی وہ تِری عادتوں کے خواب کیسے کریں کنارا، کہ پیشِ نظر رہیں تکمیلِ آرزُو سے جُڑے...
  15. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: کٹی زیست جس کی ساری تِرا اعتبار کرتے :::::: Shafiq Khalish

    غزل کٹی زیست جس کی ساری تِرا اعتبار کرتے ہُوا جاں بَلب بلآخر تِرا انتظار کرتے یہ میں سوچتا ہُوں اکثر کہ اگر وہ مِل بھی جاتے وہی کج ادائیوں سے مجھے بے قرار کرتے بَپا حشر کیا نہ ہوتا، جو وہ چھوڑ کر ہر اِک کو کبھی رسم و راہ مجھ سے اگر اُستوار کرتے اِسی ڈر میں مُبتلا ہُوں، کہ بدیس آ کے اُس...
  16. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: دوست یا دشمنِ جاں کُچھ بھی تم اب بن جاؤ ::::: Shafiq Khalish

    غزل شفیق خلؔش دوست یا دشمنِ جاں کُچھ بھی تم اب بن جاؤ جینے مرنے کا مِرے ، اِک تو سبب بن جاؤ ہو مِثالوں میں نہ جو حُسنِ عجب بن جاؤ کِس نے تم سے یہ کہا تھا کہ غضب بن جاؤ آ بسو دِل کی طرح، گھر میں بھی اے خوش اِلحان ! زندگی بھر کو مِری سازِ طرب بن جاؤ رشک قسمت پہ مِری سارے زمانے کو رہے ہمسفرتم...
  17. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: نظرسے جواُس کی نظر مِل گئی ہے :::::: Shafiq Khalish

    غزل شفیق خلؔش نظرسے جواُس کی نظر مِل گئی ہے محبّت کو جیسے اثر مِل گئی ہے سرِشام وہ بام پر آئے ، شاید ! ہم آئے گلی میں خبر مِل گئی ہے مزید اب خوشی زندگی میں نہیں ہے تھی قسمت میں جومُختصرمِل گئی ہے گِلہ کیوں کریں ہم مِلی بے کلی کا توسُّط سے اُس کے اگرمِل گئی ہے ہَمہ وقت طاری جو رہتی...
  18. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::: خاک بے خوابی کو تھپک دیکھوں ::::: Shafiq Khalish

    غزل شفیق خلؔش خاک بے خوابی کو تھپک دیکھوں غم کی ہر اُور سے لپک دیکھوں خُونِ دِل سا ہی اب ٹپک دیکھوں سیلِ غم میں وہی چَپَک دیکھوں اب بھی سینے میں تیری یاد سے وہ شُعلۂ عِشق کی لپک دیکھوں ہے توقُّف بھی اِنتظار میں کُچھ کاش پلکیں ذرا جھپک دیکھوں اُلفت اِس دِل میں وہ ہُوئی یُوں خلش...
  19. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::خواب ہی خواب اب تلک دیکھوں :::::: Shafiq Khalish

    غزل شفیق خلؔش خواب ہی خواب اب تلک دیکھوں کب حقیقت میں اِ ک جھلک دیکھوں کوئی صُورت دِکھے وہی صُورت معجزہ کچھ تو، اے فلک دیکھوں چشم ترسے ہے بَوجھ پلکوں پر جی کرے غم ذرا چھلک دیکھوں گِرتےقطرے کی کیا حقیقت ہے بن کے آنسو میں خود ڈھلک دیکھوں دِید سے جس کی ، زندگی بدلی! کاش اُس کی میں...
  20. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: ہُوں کِرن سُورج کی پہلی، اور کبھی سایا ہُوں میں:::::: Shafiq Khalish

    غزل شفیق خلؔش ہُوں کِرن سُورج کی پہلی، اور کبھی سایا ہُوں میں کیسی کیسی صُورتوں میں وقت کی آیا ہُوں میں قُربِ محبُوباں میں اپنی نارَسائی کے سبب گھیرکرساری اُداسی اپنے گھر لایا ہُوں میں گو قرار آئے نہ میرے دِل کو اُن سے رُوٹھ کر جب کہ مِلنے سے اِسی پر زخم کھا آیا ہُوں میں بے سبب اُن سے...
Top