شفیق خلش :::::: دبائے دانتوں میں اپنی زبان بیٹھے ہیں:::::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین



غزل
دبائے دانتوں میں اپنی زبان بیٹھے ہیں
ہم اُن سے کچھ نہ کہیں گے یہ ٹھان بیٹھے ہیں

رہِ غزال میں باندھے مچان بیٹھے ہیں
ہم آزمانے کو قسمت ہی آن بیٹھے ہیں

کُشادہ دل ہیں، سِتم سے رہے ہیں کب خائف
کریں وہ ظُلم بھی ہم پرجو ٹھان بیٹھے ہیں

نہیں ہے اُن سے ہماری کوئی شناسائی
گلی میں شوقِ تجلّی میں آن بیٹھے ہیں

کہاں ہم ایسے، غزالوں کے رَم سے ہوں عاجز
اُتارنے کو ذرا سی تکان بیٹھے ہیں

خُدا کرے، وہ حقیقت میں ہم کو ہوں حاصل
جنہیں ہم اپنا، تصوّر میں مان بیٹھے ہیں

نہیں یہ غم، کہ گئیں ساری راحتیں دل کی
ہم اُن کو اپنی خوشی کرکے دان بیٹھے ہیں

کچھ اورپاس نہیں وارنے کوجاں کے سِوا
لُٹا کے اُن پہ ہی دونوں جہان بیٹھے ہیں

سِتَم سے اُن کےخلش، زندگی لبِ دم ہے
مگر وہ ہیں کہ ، ابھی اور ٹھان بیٹھے ہیں

شفیق خلؔش
 
Top