شفیق خلش ::::: جب اُس نظر میں بھی بیگانگی سی ہوتی ہے::::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین


غزل
شفیق خلؔش
تب اَوج پر مِری واماندگی سی ہوتی ہے
جب اُس نظر میں بھی بیگانگی سی ہوتی ہے

پِھر روز و شب لِئے افسُردگی سی ہوتی ہے
بس اُس کے مِلنے پہ آسودگی سی ہوتی ہے

ترس رہے ہیں ذرا سی ہنسی، خوشی کے لیے
کہ زندگی بھی نہ اب زندگی سی ہوتی ہے

دِیا سُخن کو نیا رنگ تیری فُرقت نے
اب بول چال میں اُفتادگی سی ہوتی ہے

دِلوں کا حال خُدا جانتا ہے خُوب، مگر
خوشی بھی مِلنے پہ آزردگی سی ہوتی ہے

ہر اِک حَسِیں کو یُوں تا دُور چھوڑتی ہے نظر !
بُتوں کی چال بھی دِل بُردگی سی ہوتی ہے

گُماں مِلے پہ، ہمیشہ مَہِ مُکمل کا !
وہ گُل کے چہرے پہ تابندگی سی ہوتی ہے

بدل سکے نہ زمانے ہماری فِطرت کو!
بُتوں کی اب بھی وہی بندگی سی ہوتی ہے

چُھپائے پِھرتے ہیں خود کو ہم اُن سے یُوں بھی خلؔش
کہ سامنا ہو تو شرمندگی سی ہوتی ہے

شفیق خلؔش

https://rekhta.org/poets/shafiq-khalish/ghazals?lang=Ur


 
Top