شفیق خلش :::::: روز و شب کا رہا خیال نہیں!:::::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین


روز و شب کا رہا خیال نہیں!
کیوں یُوں گذریں کا بھی ملال نہیں

اک تنومند ہے شجر دُکھ کا
غم مِرا، اب غمِ نہال نہیں

لوگ پُوچھیں ہیں نام تک اُس کا
صرف افسُردگی سوال نہیں

کچھ بھی کہنا کہاں ہے کچھ مُشکل
کچھ کہوں دِل کی، یہ مجال نہیں

لوگ ہنستے ہیں حال پر جو مِرے
میں بھی ہنستا ہوں کیا کمال نہیں

آ گئی موت، غم سے مر بھی چُکا
پھر بھی زندہ ہُوں کیا محال نہیں

محورِ ذہن ہو گئے ہیں، کہ اب !
کب مجھے اُن کا ہی خیال نہیں

تھا یُوں پُرکیف دِید کا منظر
کب تخیّل میں اب دھمال نہیں

دیکھ لیتا ہُوں اُن کو ساتھ اپنے
بس تصوّر تباہ حال نہیں

مثلِ جاناں کہوں جسے میں، خلؔش
ایسا ہرگز کوئی جمال نہیں

شفیق خلؔش

 
Top