شفیق خلش شفیق خلؔش ::::: یوں زندگی میں ہم سے کوئی کام بھی تو ہو ::::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین


غزل
یوں زندگی میں ہم سے کوئی کام بھی تو ہو
مائل بہ عِشق جس سے دِل آرام بھی تو ہو

اُن تک سفر کا میرے اب انجام بھی تو ہو
کچھ تگ و دو یہ باعثِ اِنعام بھی تو ہو

دُشنام گو لَبوں پہ خَلِش نام بھی تو ہو!
عاشِق ہو تم، تو شہرمیں بدنام بھی تو ہو

پتّھر برس رہے ہوں کہ ہو موت منتظر
اُن کا، گلی میں آنے کا پیغام بھی تو ہو

کرلُوں گا طے میں عِشق کی پُر پیچ رہگُزر
اُس پار مُنتظر وہ خوش اندام بھی تو ہو

گردن زنی پہ میری تھا قاتِل کا عُذر یہ!
کچھ ساتھ حُکم کے تِرے، اِلزام بھی تو ہو

میخانے جائیں کیوں بَھلا پینےکو پِھرخلؔش
گھر میں، مگر وہ ساقیِ گُلفام بھی تو ہو

شفیق خلؔش

 
طارق صاحب سلامت رہیں ۔۔۔
کیا خوب لکھتے ہیں خلش صاحب ۔۔۔
اُن تک سفر کا میرے اب انجام بھی تو ہو
کچھ تگ و دو یہ باعثِ اِنعام بھی تو ہو

کرلُوں گا طے میں عِشق کی پُر پیچ رہگُزر
اُس پار مُنتظر وہ خوش اندام بھی تو ہو
مندرجہ بالا اشعار بے حد پسند آئے ۔۔۔
 
Top