شفیق خلش :::::: یادوں سے سیلِ غم کو ہیں آنکھوں میں رَوکے ہم ! :::::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین



یادوں سے سیلِ غم کو ہیں آنکھوں میں روکے ہم
کب بھُولے، زندگی سے محبّت کے بوسے ہم

دیکھیں برستی آگ لبِ نغمہ گو سے ہم
حیراں ہیں گفتگو کو مِلی طرزِ نَو سے ہم

سب دوست، آشنا جو تھے تاتاری بن گئے
آئے وطن، تو بیٹھے ہیں محبوس ہوکے ہم

اپنی روایتوں کا ہَمَیں پاس کب رہا !
کرتے شُمار خود کو ہیں اِس دَورِ نَو کے ہم

کیا تھی خبرکہ، کھائیں گے جنّت کو چھوڑکر
اِس دہرِ پُر فریب میں، کیا کیا نہ دھوکے ہم

الزام سارا لِکھّے پہ ڈالیں نہ کیوں ، کہ جب !
رہتے ہیں مُطمئن سے، یُوں قسمت کو رو کے ہم

چھائی وہ تِیرَگی سی ہَمَہ وقت ہے خلؔش !
ہوتی سَحر نہیں ہے اُٹھیں لاکھ سو کے ہم

شفیق خلؔش
 
Top