غزل
چلے بھی آؤ کہ فُرقت سے دِل دُہائی دے
غمِ جہاں بھی، نہ اِس غم سے کُچھ رہائی دے
کبھی خیال، یُوں لائے مِرے قریب تُجھے !
ہرایک لحظہ، ہراِک لب سے تُو سُنائی دے
کبھی گُماں سے ہو قالب میں ڈھل کے اِتنے قریب
تمھارے ہونٹوں کی لرزِش مجھے دِکھائی دے
ہے خوش خیالیِ دل سے کبھی تُو پہلُو میں
کُچھ اِس طرح...
غزل
دِیدہ دلیری سب سے، کہ اُس کو بُھلادِیا
اَوروں نے جب کہا کبھی، مجھ کو رُلا دِیا
جو روز بڑھ رہا تھا بہر طَور پانے کا!
جذبہ وہ دِل کا ہم نے بالآخر سُلادیا
تردِید و خوش گمانی کو باقی رہا نہ کُچھ
ہر بات کا جواب کُچھ ایسا تُلا دِیا
تشہیر میں کسر کوئی قاصِد نے چھوڑی کب!
خط میرے نام لکھ کے جب...
غزل
کرب چہرے کا چھپاتے کیسے
پُر مُسرّت ہیں جتاتے کیسے
ہونٹ بھینچے تھے غَم و رِقَّت نے
مسکراہٹ سی سجاتے کیسے
بعد مُدّت کی خبرگیری پر
اشک آنکھوں کے بچاتے کیسے
دوستی میں رہے برباد نہ کم
دشمنی کرتے نبھاتے کیسے
خوش ہیں، وابستہ ہے اِک یاد سے زیست
وہ نہ مِلتے، تو بِتاتے کیسے
ظاہر اُن پر ہُوئیں...
دِل مُبتلائے حسرتِ دِیدار ہی تو ہے
فُرصت وَبا کے دَم سے یہ بیکار ہی تو ہے
کب دِل کو اِنحرافِ روابِط تھا یُوں قبُول
ہر وقت ذکرِ مرگ سے بیزار ہی تو ہے
بندہ وَبا سے، گھر رہا محفوظ ہے ضرور
لیکن، تمھارے ہجر میں بیمار ہی تو ہے
منزل کی دسترس میں کوئی سد نہیں، مگر
ہر پیش و پس، بہ مُمکنہ رفتار ہی تو...
دِل مُبتلائے حسرتِ دِیدار ہی تو ہے
فُرصت وَبا کے دَم سے یہ بیکار ہی تو ہے
کب دِل کو اِنحرافِ روابِط تھا یُوں قبُول
ہر وقت ذکرِ مرگ سے بیزار ہی تو ہے
بندہ وَبا سے، گھر رہا محفوظ ہے ضرور
لیکن، تمھارے ہجر میں بیمار ہی تو ہے
منزل کی دسترس میں کوئی سد نہیں، مگر
ہر پیش و پس، بہ مُمکنہ رفتار ہی تو...
غزل
اِک ندامت عِوَض کا عیب نہیں
پارسا کہنا پھر بھی زیب نہیں
ظاہر و باطن ایک رکھتا ہُوں
مَیں ریاکار و پُر فریب نہیں
ہُوں مَیں کچھ کچھ یہاں بھی شورِیدہ
راست کہنا کہاں پہ عیب نہیں
ہے تسلسل سے راہِ زیست گراں
کُچھ تنزل نہیں، نشیب نہیں
اُلجھنیں معرضِ وُجُود ہوں خود
کارفرما کُچھ اِس میں غیب نہیں...
غزل
نہ مبتلائے تردُّد حیات کی جائے
ذرا سا دُور رہے، سب سے بات کی جائے
کنارا کرتے تھے اکثر شُنِید و گُفت سے جو
ترس رہے ہیں کہ اب کِس بات کی جائے
وَبا میں ملِنے کی اتنی نہ آرزو ہو اُنھیں
جو گفتگوئے ہمہ ممکنات کی جائے
نہ جینا اچھا تھا اُن کا جو مر رہے ہیں یہاں
اگر تمیزِ حیات و ممات کی...
غزل
طَلَب تھی جِس کی، وہ صُورت مِلی یہاں بھی نہیں
مُدافعت کوغموں کی مَیں وہ جَواں بھی نہیں
بَدیسی زِیست کو حاصِل مِزاج داں بھی نہیں
دروغ گوئی ہو، کہہ دُوں جو رائیگاں بھی نہیں
ثباتِ دِل کو ہی پُہنچے تھے ہم وطن سے یہاں
کہیں جو راست، تو حاصِل ہُوا یہاں بھی نہیں
غموں کی دُھوپ سے بچ لیں کِس ایک...
غزل
کوئی دستور، یا رواج تو ہو
عشقِ افزوں کا کوئی باج تو ہو
کچھ طبیعت میں امتزاج تو ہو
روزِ فردا کا اُن کی، آج تو ہو
مُنتظر روز و شب رہیں کب تک!
ماسوا، ہم کو کام کاج تو ہو
بس اُمید اور آس کب تک یُوں!
حاصِل اِس عِشق سے خراج تو ہو
دِل تسلّی سے خوش رہے کب تک
محض وعدوں کا کُچھ علاج تو ہو
ہم نہ...
سدِّبابِ جبر کو، دِیوار و در بالکل نہ تھا
جو سُکوں حاصل اِدھر ہے وہ اُدھر بالکل نہ تھا
تھا غضب کا دَور جس میں گھر بھی گھر بالکل نہ تھا
کون تھا مُثبت عمل جو در بَدر بالکل نہ تھا
حاکمِ وقت ایک ایسا تھا مُسلّط قوم پر
جس پہ، باتوں کا کسی کی، کُچھ اثر بالکل نہ تھا
حق شناسی، نوجوانی سے ودِیعت تھی...
غزل
جو، رُو شناس نے پیغام ہم کو چھوڑا ہے!
اُسی نے لرزہ براندام ہم کو چھوڑا ہے
نہ خوف و خاطرِ انجام ہم کو چھوڑا ہے
بنا کے خوگرِ آلام ہم کو چھوڑا ہے
گو شَوقِ وصل نے، ناکام ہم کو چھوڑا ہے!
گلی سے دُور نہ اِک شام ہم کو چھوڑا ہے
قدم قدم نہ ہو دِل غم سے کیسے آزردہ !
مُصیبتوں نےکوئی گام ہم کو چھوڑا...
غزل
غرض تھی اپنی تو بانہوں میں بھر لیا تھا مجھے
کسی کی دشمنی میں دوست کرلیا تھا مجھے
مُسلسَل ایسے تھے حالات مَیں سنبھل نہ سکا
کُچھ اُس نے عِشق میں بھی سہل تر لیا تھا مجھے
کسی بھی بات کا کیونکر یقیں نہیں تھا اُنھیں
خُدا ہی جانے جو آشفتہ سر لیا تھا مجھے
کسی کا مشوَرہ درخورِ اِعتنا کب تھا
تھی...
غزل
روزو شب دِل کو تخیّل سےلُبھائے رکھنا
ایک صُورت دِلِ وِیراں میں بَسائے رکھنا
خوش تصوّر سے ہر اِک غم کو دبائے رکھنا
کوئی اُمّید، ہمہ وقت لگائے رکھنا
بات سیدھی بھی ، معمّا سا بنائے رکھنا!
دِل کے جذبات کو عادت تھی چھپائے رکھنا
ڈر سے، ظاہر نہ مِرا اِضطراب اُن پر ہو کہیں!
ایک...
غزل
ہمقدم پھر جو یار ہو جائے
ہر فِضا سازگار ہو جائے
گُل کے دیکھے پہ یاد سے اُس کی!
جی عجب بےقرار ہو جائے
اب بھی خواہش، کہ وہ کسی قیمت
ہم خیال ایک بار ہو جائے
حاصلِ دِید سے حصُول کا ایک
بُھوت سر پر سوار ہو جائے
ایسے چہرے نقاب میں ہی بَھلے
جِن کو دیکھو تو پیار ہوجائے
خامشی خُوب یُوں...
غزل
آشنا دست بر دُعا نہ ہُوا
دِل سے میرے ذرا جُدا نہ ہُوا
ذکرِ عِشق اُن سے برمَلا نہ ہُوا
پیار بڑھنے کا سِلسِلہ نہ ہُوا
کیا کہُوں اُن کے عَزْم و وَعدوں کا!
کُچھ بھی قَسموں پہ دَیرپا نہ ہُوا
بَن کے راحت رہے خیالوں میں
بس مِلَن کا ہی راستہ نہ ہُوا
شے مِلی اِس سے، اَور کرنے کی!
ظُلم پر جب بھی...
غزل
ضرُور پُہنچیں گے منزل پہ کوئی راہ تو ہو
جَتن کو اپنی نظر میں ذرا سی چاہ تو ہو
قیاس و خوف کی تادِیب و گوشمالی کو
شُنِید و گُفت نہ جو روز، گاہ گاہ تو ہو
یُوں مُعتَبر نہیں اِلزامِ بیوفائی کُچھ
دِل و نَظر میں تسلّی کو اِک گواہ تو ہو
سِسک کے جینے سے بہتر مُفارقت ہونَصِیب!
سِتم سے اپنوں کے...
غزل
وہ سُکُوت، اپنے میں جو شور دَبا دیتے ہیں
جُوں ہی موقع مِلے طُوفان اُٹھا دیتے ہیں
خواہِشیں دِل کی اِسی ڈر سے دَبا دیتے ہیں
پیار کرنے پہ یہاں لوگ سَزا دیتے ہیں
چارَہ گر طبع کی بِدعَت کو جِلا دیتے ہیں
ٹوٹکا روز کوئی لا کے نیا دیتے ہیں
آشنا کم لَطِیف اِحساسِ محبّت سے نہیں
لیکن اسباب تماشہ...
غزل
لالا کے چشمِ نم میں مِرے خواب تھک گئے
جُھوٹے دِلاسے دے کےسب احباب تھک گئے
یادیں تھیں سَیلِ غم سے وہ پُرآب تھک گئے
رَو رَو کے اُن کے ہجر میں اعصاب تھک گئے
خوش فہمیوں کےڈھوکے ہم اسباب تھک گئے
آنکھوں میں بُن کے روز نئے خواب تھک گئے
جی جاں سے یُوں تھے وصل کو بیتاب تھک گئے
رکھ کر خیالِ خاطر و...
غزل
ہو خیال ایسا جس میں دَم خَم ہو
شاید اُس محوِیّت سے غم کم ہو
پھر بہار آئے میرے کانوں پر!
پھر سے پائل کی اِن میں چھم چھم ہو
اب میسّر کہاں سہولت وہ !
اُن کو دیکھا اور اپنا غم کم ہو
ہاتھ چھوڑے بھی اِک زمانہ ہُوا
اُس کی دُوری کا کچھ تو کم غم ہو
مِلنےآتے بھی ہیں، تو ایسے خلشؔ!
جیسے، دِل اُن...
غزل
شفیق خلشؔ
کُھلے بھی کُچھ، جو تجاہُل سے آشکار کرو!
زمانے بھر کو تجسّس سے بیقرار کرو
لکھا ہے رب نے ہمارے نصیب میں ہی تمھیں
قبول کرکے، محبّت میں تاجدار کرو
نہ ہوگی رغبتِ دِل کم ذرا بھی اِس سے کبھی!
بُرائی ہم سے تُم اُن کی، ہزار بار کرو
یُوں اُن کے کہنے نے چھوڑا نہیں کہیں کا ہَمَیں
مَیں لَوٹ...