شفیق خلش ::::::تقابل کسی کا ہو کیا نازبُو سے::::::Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین

Shafiq_Khalish-_Small.jpg

غزل
تقابل کسی کا ہو کیا نازبُو سے
نہیں اِک مشابہ مری خُوبرُو سے

کہاں باز آئے ہم اِک آرزو سے !
نکھرتے مہکتے ترے رنگ و بُو سے

ہُوا کچھ نہ حاصل تری جستجو سے
رہے پیرہن تر ہم اپنے لہو سے

اِطاعت، بغاوت میں ڈھل جائے اکثر
نتیجہ نہ حاصل ہو جب گفتگو سے

پیامِ بہم روشنی کی کرن ہے!
ہٹے نا اُمیدی بھی اب چار سو سے

خموشی ہُوئی اِس کہے پر مقدّر!
نہ کچھ ہو تجاوز مری آبرُو سے

نہ پہچان باقی رہی انفرادی
نہ قومی تشخص وہ اب من و تُو سے

کَرَم، روزِ محشر یہ حُوروں کا وعدہ
مگر دِل جو خوش ہو مری ہُوبہوُ سے

بُرے، شاید اپنے ستم پر لگو کچھ!
جُدا کرلو چاہت جو میرے لہو سے

دے احساسِ فرحت گلوں کا تبسّم
مگر راحتِ دِل وہ اِک ماہ رُو سے

خلشؔ اُن کی رغبت لئے یہ بھی ڈر ہے
نہ ہوجائے چاہت مسلسل نمو سے

شفیق خلشؔ

 
آخری تدوین:
Top