غزل
اکبؔر الٰہ آبادی
دِل زِیست سے بیزار ہے،معلُوم نہیں کیوں
سینے پہ نَفَس بار ہے، معلُوم نہیں کیوں
اِقرارِ وَفا یار نے ہر اِک سے کِیا ہے
مُجھ سے ہی بس اِنکار ہے، معلُوم نہیں کیوں
ہنگامۂ محشر کا تو مقصوُد ہے معلُوم
دہلی میں یہ دربار ہے، معلوم نہیں کیوں
جِس سے دِلِ رنجُور کو ،پہونچی ہے اذِیّت...
غزل
کوئی دستور، یا رواج تو ہو
عشقِ افزوں کا کوئی باج تو ہو
کچھ طبیعت میں امتزاج تو ہو
روزِ فردا کا اُن کی، آج تو ہو
مُنتظر روز و شب رہیں کب تک!
ماسوا، ہم کو کام کاج تو ہو
بس اُمید اور آس کب تک یُوں!
حاصِل اِس عِشق سے خراج تو ہو
دِل تسلّی سے خوش رہے کب تک
محض وعدوں کا کُچھ علاج تو ہو
ہم نہ...
غزل
جو، رُو شناس نے پیغام ہم کو چھوڑا ہے!
اُسی نے لرزہ براندام ہم کو چھوڑا ہے
نہ خوف و خاطرِ انجام ہم کو چھوڑا ہے
بنا کے خوگرِ آلام ہم کو چھوڑا ہے
گو شَوقِ وصل نے، ناکام ہم کو چھوڑا ہے!
گلی سے دُور نہ اِک شام ہم کو چھوڑا ہے
قدم قدم نہ ہو دِل غم سے کیسے آزردہ !
مُصیبتوں نےکوئی گام ہم کو چھوڑا...
غزل
عبدالحمید عدمؔ
دِل تھا ،کہ پُھول بَن کے بِکھرتا چلا گیا
تصوِیر کا جمال اُبھرتا چلا گیا
شام آئی، اور آئی کچھ اِس اہتمام سے!
وہ گیسُوئے دراز بِکھرتا چلا گیا
غم کی لکیر تھی کہ، خوُشی کا اُداس رنگ
ہر نقش آئینے میں اُبھرتا چلا گیا
ہر چند، راستے میں تھے کانٹے بچھے ہُوئے
جس کو تیری طلب تھی...
غزل
خواجہ حیدر علی آتشؔ
خُدا کرے نہ تمھیں میرے حال سے واقف
نہ ہو مزاجِ مبارک ملال سے واقف
نہیں جو روز شب وماہ وسال سے واقف
وہی ہے خُوب زمانےکے حال سے واقف
زباں سے کِس کی مہِ چاردہ نہیں سُنتے!
زمانہ ہے تِرے فضل و کمال سے واقف
دُعائے خیر ، یہی ہے مری حَسِینوں کو
نہ ہو کمال تمھارا زوال سے واقف...
غزل
ہو خیال ایسا جس میں دَم خَم ہو
شاید اُس محوِیّت سے غم کم ہو
پھر بہار آئے میرے کانوں پر!
پھر سے پائل کی اِن میں چھم چھم ہو
اب میسّر کہاں سہولت وہ !
اُن کو دیکھا اور اپنا غم کم ہو
ہاتھ چھوڑے بھی اِک زمانہ ہُوا
اُس کی دُوری کا کچھ تو کم غم ہو
مِلنےآتے بھی ہیں، تو ایسے خلشؔ!
جیسے، دِل اُن...
غزل
شفیق خلشؔ
کُھلے بھی کُچھ، جو تجاہُل سے آشکار کرو!
زمانے بھر کو تجسّس سے بیقرار کرو
لکھا ہے رب نے ہمارے نصیب میں ہی تمھیں
قبول کرکے، محبّت میں تاجدار کرو
نہ ہوگی رغبتِ دِل کم ذرا بھی اِس سے کبھی!
بُرائی ہم سے تُم اُن کی، ہزار بار کرو
یُوں اُن کے کہنے نے چھوڑا نہیں کہیں کا ہَمَیں
مَیں لَوٹ...
غزل
تیری نظروں سے اُلجھ جانے کو جی چاہتا ہے
پِھر وہ اُلفت بھرے پیمانے کو جی چاہتا ہے
تیرے پہلُو میں دَبک جانے کو جی چاہتا ہے
غم سے کُچھ دیر نِکل آنے کو جی چاہتا ہے
دِل میں ڈر سے دَبی اِک پیار کی چنگاری کو
دے ہَوا، شعلہ سا بھڑکانے کو جی چاہتا ہے
جاں بچانے ہی ہم محفوظ مقام آئے تھے!
پھر مُصیبت...
غزل
شفیق خلشؔ
ماہِ رمضاں میں عِبادت کا مزہ کُچھ اور ہے
روزہ سے بڑھ کر نہ رُوحانی غذا کُچھ اور ہے
لوگ سمجھیں ہیں کہ روزوں سےہُوئے ہیں ہم نڈھال
سچ اگر کہدیں جو پُوچھے پر، بِنا کُچھ اور ہے
یُوں تو وقفہ کرکے کھالینے کی بھی کیا بات ہے
بعد اِفطاری کے، روٹی کا نشہ کُچھ اور ہے
اگلی مانگی کا ہمیں...
غزل
کئے مجھ سے سارے سوالوں میں تم ہو
مرے خُوب و بَد کے حوالوں میں تم ہو
سبب، غیض وغم کے زوالوں میں تم ہو
ہُوں کچھ خوش، کہ آسُودہ حالوں میں تم ہو
مُقدّر پہ میرے تُمہی کو ہے سبقت
خوشی غم کے دائم دلالوں میں تم ہو
یُوں چاہت سے حیرت ہے حِصّہ لیے کُچھ
فلک کے مُقدّس کمالوں میں تم ہو
کہاں...
غزل
تھکتے نہیں ہو آنکھوں کی آبِ رَواں سے تم
مر کھپ چُکو بھی، ذات میں درد ِنہاں سے تم
وابستہ اورہوگے غمِ بے کراں سے تم
خود میں دبائے درد اور آہ وفُغاں سے تم
آیا خیال جب بھی، مُسلسل ہی آیا ہے!
کب کم رہے ہو یاد میں اِک کارواں سے تم
جب ہٹ سکے نہ راہ سے، رستہ بدل چَلو
کیونکر...
غزل
ہَوا چلی تھی کُچھ ایسی، بِکھر گئے ہوتے
رَگوں میں خُون نہ ہوتا تو مر گئے ہوتے
یہ سرد رات، یہ آوارگی، یہ نیند کا بَوجھ
ہم اپنے شہر میں ہوتے، تو گھر گئے ہوتے
نئے شعوُر کو جِن کا شِکار ہونا تھا
وہ حادثے بھی ہَمَیں پر گُزر گئے ہوتے
ہمی نے رَوک لِئے سر یہ تیشۂ اِلزام
وگرنہ شہر میں کِس کِس کے سر...
غزل
فراقؔ گورکھپوری
نِگاہِ ناز نے پردے اُٹھائے ہیں کیا کیا
حجاب اہلِ محبّت کو آئے ہیں کیا کیا
جہاں میں تھی بس اِک افواہ تیرے جلوؤں کی
چراغِ دیر و حَرَم جِھلِملائے ہیں کیا کیا
نثار نرگسِ مے گُوں، کہ آج پیمانے!
لبوں تک آتے ہُوئے تھر تھرائے ہیں کیا کیا
کہیں چراغ، کہیں گُل، کہیں دِلِ برباد
خِرامِ...
غزل
بتاؤں کِس طرح احباب کو آنکھیں جو ایسی ہیں
کہ کل پلکوں سے ٹُوٹی نیند کی کرچیں سمیٹی ہیں
سفر مَیں نے سمندر کا کِیا کاغذ کی کشتی میں
تماشائی نِگاہیں اِس لیے بیزار اِتنی ہیں
خُدا میرے! عطا کرمجھ کو گویائی، کہ کہہ پاؤں
زمِیں پر رات دِن جو باتیں ہوتی مَیں نے دیکھی ہے
تُو اپنے فیصلے سے وقت! اب...
غزل
دِل میں میرے نہ جھانکتی تھی کوئی
تھا سبب کچھ، کہ جھانپتی تھی کوئی
خواہشِ دِل جو بھانپتی تھی کوئی
ڈر سے لغزِش کے کانپتی تھی کوئی
دِل کی ہر بات پر مجھے اکثر
تیز لہجے میں ڈانٹتی تھی کوئی
لمبی چُٹیا کا شوق تھا اِتنا
بال ہر روز ناپتی تھی کوئی
یاد اُن آنکھوں سے میکشی بھی رہی
جن کو ہاتھوں سے...
غزل
دِل کی کہہ د ُوں مجال بھی تو نہیں
اس پہ حاصل کمال بھی تو نہیں
جس سے دِل اُس کا رام ہوجائے
ہم میں ایسا کمال بھی تو نہیں
خاطرِ ماہ و سال ہو کیونکر
کوئی پُرسانِ حال بھی تو نہیں
جس سے سجتے تھے خواب آنکھوں میں
اب وہ دِل کا کمال بھی تو نہیں
کیسے مایوسیاں نہ گھر کرلیں
دِل کا وہ اِستِعمال بھی...
غزل
فراقؔ گورکھپُوری
عِشق فُسردہ ہی رہا ،غم نے جَلا دِیا تو کیا
سوزِ جِگر بڑھا تو کیا، دِل سے دُھواں اُٹھا تو کیا
پھر بھی تو شبنمی ہے آنکھ، پھر بھی تو ہَونٹ خُشک ہیں
زخمِ جِگر ہنسا تو کیا ، غُنچۂ دِل کِھلا تو کیا
پھر بھی تو اہلِ غم تِرے، رازِ سُکوں نہ پا سکے!
تُو نے نظر کی لَورِیاں دے کے سُلا...
غزل
حیات و ذات پر فُرقت کے غم برباد بھی ہونگے
کبھی حاصل رہی قُربت سے ہم پِھر شاد بھی ہونگے
ذرا بھی اِحتِمال اِس کا نہ تھا پردیس آنے تک!
کہ دُوری سے تِری، ہم اِس قدر ناشاد بھی ہونگے
بظاہر جو، نظر آئیں نہ ہم سے آشنا بالکل
ضرُور اُن کو کئی قصّے پُرانے یاد بھی ہونگے
شُبہ تک تھا نہیں ترکِ...
غزل
بہار آئی ہے کُچھ بے دِلی کا چارہ کریں
چمن میں آؤ حریفو ! کہ اِستخارہ کریں
شرابِ ناب کے قُلزُم میں غُسل فرمائیں
کہ آبِ مُردۂ تسنِیم سے غرارہ کریں
جُمود گاہِ یخ و زمہرِیر ہی میں رہیں
کہ سیرِ دائرۂ شُعلہ و شرارہ کریں
حِصارِ صومِعہ کے گِرد ، سعی فرمائیں
کہ طوفِ کعبہ رِندِ شراب خوارہ...
غزل
بَدن میں اُتریں تھکن کے سائے تو نیند آئے
یہ دِل، کہانی کوئی سُنائے تو نیند آئے
بُجھی بُجھی رات کی ہتھیلی پہ مُسکرا کر!
چراغِ وعدہ، کوئی جلائے تو نیند آئے
ہَوا کی خواہش پہ کون آنکھیں اُجاڑتا ہے
دِیے کی لَو خود سے تھر تھرائے تو نیند آئے
تمام شب جاگتی خموشی نے اُس کو سوچا!
وہ زیرِ لب گیت...