غزل
پردے میں ہر آواز کے شامِل تو وہی ہے
ہم لا کھ بدل جائیں، مگر دِل تو وہی ہے
موضوعِ سُخن ہے وہی افسانۂ شِیرِیں !
محِفل ہو کوئی، رَونَقِ محِفل تو وہی ہے
محسُوس جو ہوتا ہے، دِکھائی نہیں دیتا
دِل اور نظر میں حدِ فاصِل تو وہی ہے
ہر چند تِرے لُطف سے محرُوم نہیں ہم
لیکن دلِ بیتاب کی مُشکل تو وہی...
غزل
نہیں کہ پیار ، محبّت میں کاربند نہیں
بس اُس کی باتوں میں پہلے جو تھی وہ قند نہیں
نظر میں میری ہو خاطر سے کیوں گزند نہیں
خیال و فکر تک اُس کے ذرا بُلند نہیں
کب اپنے خواب و تمنّا میں کامیاب رہے
ہم ایک وہ جو کسی مد میں بہرہ مند نہیں
تمام زیور و پازیب ہم دِلا تو چکے!
ملال پِھر بھی ،کہ...
غزل
نشہ ہے، جہل ہے، شر ہے، اِجارہ داری ہے
ہماری جنگ، کئی مورچوں پہ جاری ہے
سَمیٹ رکّھا ہے جس نے تعیش دُنیا کے
سُکونِ دِل کا تو ، وہ شخص بھی بِھکاری ہے
یہ پُوچھنے کا تو حق ہے سب اہلِ خِدمت کو!
ہمارے دُکھ ہیں، خوشی کیوں نہیں ہماری ہے
اُس اِنتظار کا اب موت تو نہیں ہے جواز
جس اِنتظار میں، اِک...
راہ ِحق میں ہُوئے لڑکر ،کبھی مر کر لاکھوں
زندہ جاوید ہر اِک دیس کے گھر گھر لاکھوں
ہو محبّت کے خزانے میں کہاں کُچھ بھی کمی!
چاہے دامن لئےجاتے رہیں بھر بھر لاکھوں
کوچۂ یار کومیلے کا سماں دیتے ہیں
اِک جَھلک دِید کی خواہش لئے دِن بھر لاکھوں
کردے مرکوُز جہاں بَھر کی نِگاہیں خود پر
چاند پِھر...
شان الحق حقی
غزل
اثر نہ ہو، تو اُسی نطقِ بے اثر سے کہہ !
چُھپا نہ درد ِمحبّت ،جہان بَھر سے کہہ
جو کہہ چُکا ہے، تو اندازِ تازہ تر سے کہہ
خبرکی بات ہے اِک، گوشِ بے خبر سے کہہ
چَمَن چَمَن سے اُکھڑ کر رَہے گا پائے خِزاں
رَوِش رَوِش کو جتا دے، شجر شجر سے کہہ
بیانِ شَوق نہیں قِیل و...
غزل
اے خوفِ مرگ ! دِل میں جو اِنساں کے تُو رَہے
پِھر کُچھ ہَوس رہے، نہ کوئی آرزُو رَہے
فِتنہ رَہے، فساد رَہے، گُفتگُو رَہے
منظُور سب مجھے، جو مِرے گھر میں تُو رَہے
زُلفیں ہٹانی چہرۂ رنگیں سے کیا ضرُور
بہتر ہے مُشک کی گُلِ عارض میں بُو رَہے
اب تک تِرے سبب سے رَہے ہم بَلا نصیب
اب تابہ حشر گور...
جوؔش ملیح آبادی
مناظرِ سَحَر
کیا رُوح فزا جلوۂ رُخسارِ سَحر ہے
کشمیر دلِ زار ہے، فِردَوس نظر ہے
ہر پُھول کا چہرہ عَرَقِ حُسن سے تر ہے
ہر چیز میں اِک بات ہے، ہر شے میں اَثر ہے
ہر سمت بَھڑکتا ہے رُخِ حُور کا شُعلہ
ہر ذرّۂ ناچِیز میں ہے طُور کا شُعلہ
لرزِش وہ سِتاروں کی، وہ ذرّوں کا تبسّم...
غزل
دِل میں، اب طاقت کہاں خُوننابہ افشانی کرے
ورنہ ،غم وہ زہر ہے، پتّھر کو بھی پانی کرے
عقل وہ ناصح، کہ ہر دَم لغزِشِ پا کا خیال
دِل وہ دِیوانہ، یہی چاہےکہ نادانی کرے
ہاں مجھے بھی ہو گِلہ بے مہریِ حالات کا
تُجھ کو آزردہ اگر میری پریشانی کرے
یہ تو اِک شہرِ جنُوں ہے چاک دامانو، یہاں
سب...
غزل
تھی نہ قسمت میں مِری ،ذات وہ ہرجائی کی
ایک نسبت تھی بلا وجہ کی رُسوائی کی
راہیں مسدُود رہیں اُن سے شَناسائی کی
دِل کی دِل ہی میں رہی ساری تمنائی کی
باعثِ فخر ، یُوں نسبت رہی رُسوائی کی
تہمتوں کی بھی ، دِل و جاں سے پزِیرائی کی
کوشِشیں دَر کی، کبھی کام نہ آنے دیں گی!
وُسعتیں دشت سی...
غزل
یہ طبِیعت ہے، تو خود آزار بن جائیں گے ہم !
چارہ گر رَوئیں گے، اور غم خوار بن جائیں گے ہم
ہم سَرِ چاک وفا ہیں اور تِرا دستِ ہُنر
جو بنا دے گا ہَمَیں اے یار! بن جائیں گے ہم
کیا خبر تھی اے نِگارِشعر! تیرے عِشق میں
دِلبرانِ شہر کے دِلدار بن جائیں گے ہم
سخت جاں ہیں، پر ہماری اُستواری پر نہ جا...
غزل
شانِ عطا کو، تیری عطا کی خبر نہ ہو !
یُوں بِھیک دے، کہ دستِ گدا کو خبر نہ ہو
چُپ ہُوں، کہ چُپ کی داد پہ ایمان ہے مِرا
مانگوں دُعا جو میرے خُدا کو خبر نہ ہو
کر شوق سے شِکایتِ محرُومئ وَفا
لیکن مِرے غرُورِ وَفا کو خبر نہ ہو
اِک رَوز اِس طرح بھی مِرے بازوؤں میں آ
میرے ادب کو، تیری...
غزل
تُو اپنے دِل سے غیر کی اُلفت نہ کھوسکا
مَیں چاہُوں اور کو تو یہ مُجھ سے نہ ہوسکا
رکھتا ہُوں ایسے طالعِ بیدار مَیں، کہ رات !
ہمسایہ، میرے نالَوں کی دَولت نہ سو سکا
گو، نالہ نارَسا ہو، نہ ہو آہ میں اثر !
مَیں نے تو دَرگُزر نہ کی، جو مُجھ سے ہو سکا
دشتِ عَدَم میں جا کے نِکالُوں گا جی کا غم...
غزل
متاعِ قلب و جگِر ہیں، ہَمَیں کہیں سے مِلَیں
مگر وہ زخم ،جو اُس دستِ شبنَمِیں سے مِلَیں
نہ شام ہے، نہ گھنی رات ہے، نہ پچھلا پہر!
عجیب رنگ تِری چشمِ سُرمگیں سے مِلَیں
میں اِس وِصال کے لمحے کا نام کیا رکھّوں
تِرے لباس کی شِکنیں، تِری جَبِیں سے مِلَیں
ستائشیں مِرے احباب کی نوازِش ہیں
مگر...
غزل
دِلِ زخمی سےخُوں، اے ہمنشِیں! کُچھ کم نہیں نِکلا
تڑپنا تھا، مگر قسمت میں لِکھّا دَم نہیں نِکلا
ہمیشہ زخمِ دِل پر ، زہر ہی چھڑکا خیالوں نے !
کبھی اِن ہمدموں کی جیب سے مرہم نہیں نِکلا
ہمارا بھی کوئی ہمدرد ہے، اِس وقت دُنیا میں
پُکارا ہر طرف، مُنہ سے کسی کی ہم نہیں نِکلا
تجسُّس کی نظر...
غزل
تابِ لب حوصلہ وَروں سے گئی
خُوئے پُرسِش بھی، خود سروں سے گئی
کب سے لو تھی شُعاع ِ مہر اُترے
آخر اِک جُوئے خُوں سروں سے گئی
بنی ایذا ہی چارۂ ایذا
زخم کی آگ نشتروں سے گئی
شرمِ مِنقار، تشنگی کیا تھی
تشنگی وہ تھی جو پروں سے گئی
چھاؤں کیا دی نئی فصیلوں نے!
آشنا دُھوپ بھی گھروں سے گئی...
غزل
وفا بیگانۂ رسمِ بیاں ہے
خموشی اہلِ دِل کی داستاں ہے
مِرا دِل ہے کسی کی یاد کا نام
محبّت میری ہستی کا نِشاں ہے
تماشا چاہیے تابِ نظر دے
نگاہِ شوق ہےاور رائیگاں ہے
مُسلّم پُرسِشِ بیمار، لیکن !
وہ شانِ چارہ فرمائی کہاں ہے
تِرا نقشِ قدم ہے ذرّہ ذرّہ
زمِیں کہتے ہیں جس کو، آسماں ہے
بچے گی...
غزل
دشت میں پُہنچے، نہ گھر میں آئے!
کِن بَلاؤں کے اثر میں آئے
قہر آندھی کا ہُوا ہے نازِل
پُھول، پھل پِھر بھی شجر میں آئے
کب سے بے عکس ہے آئینہ چشم!
کوئی تصوِیر نظر میں آئے
کِتنی حسرت تھی ،کہ سیّاح کوئی
دِل کےاِس اُجڑے نگر میں آئے
قافلہ دِل کا ، کہیں تو ٹھہرے
کوئی منزِل تو سفر میں آئے...
چھوٹی رات، سفر لمبا تھا
میں اِک بستی میں اُترا تھا
سُرماندی کے گھاٹ پہ اُس دن
جاڑے کا پہلا میلا تھا
بارہ سکھیوں کا اِک جُھرمٹ
سیج پہ چکّر کاٹ رہا تھا
نئی نکور کنواری کلیاں
کورا بدن کورا چولا تھا
دیکھ کے جوبن کی پُھلواری
چاند گگن پر شرماتا تھا
پیٹ کی ہری بھری کیاری میں
سُرخ مُکھی کا...
یادوں سے سیلِ غم کو ہیں آنکھوں میں روکے ہم
کب بھُولے، زندگی سے محبّت کے بوسے ہم
دیکھیں برستی آگ لبِ نغمہ گو سے ہم
حیراں ہیں گفتگو کو مِلی طرزِ نَو سے ہم
سب دوست، آشنا جو تھے تاتاری بن گئے
آئے وطن، تو بیٹھے ہیں محبوس ہوکے ہم
اپنی روایتوں کا ہَمَیں پاس کب رہا !
کرتے شُمار خود کو ہیں اِس...
غزل
کچھ نہ ہم کو سُجھائی دیتا ہے
ہر طرف وہ دِکھائی دیتا ہے
خود میں احساس اب لئے اُن کا
لمحہ لمحہ دِکھائی دیتا ہے
ہوگئے خیر سے جواں ہم بھی
گُل بھی کیا گُل دِکھائی دیتا ہے
دسترس میں ہے کُچھ نہیں پھر بھی
اُونچا اُونچا سُجائی دیتا ہے
کب محبّت میں سُرخ رُو ہونا
اپنی قسمت دِکھائی دیتا...