غزل
یہ کون آتا ہے تنہائیوں میں جام لیِے
جلو میں چاندنی راتوں کا اہتمام لیِے
چٹک رہی ہے کسی یاد کی کلی دِل میں
نظر میں رقصِ بہاراں کی صُبح و شام لیِے
ہجومِ بادۂ و گُل میں ہجُومِ یاراں میں
کسی نِگاہ نے جُھک کر مِرے سلام لیِے
مہک مہک کے جگاتی رہی نسیمِ سَحر
لبوں پہ یارِ مسیحا نفس کا نام لیِے...
غزل
اور بھی ہو گئے بیگانہ وہ، غفلت کرکے
آزمایا جو اُنھیں ، ضبطِ محبّت کرکے
دِل نے چھوڑا ہے، نہ چھوڑے تِرے مِلنے کا خیال
بارہا دیکھ لِیا ، ہم نے ملامت کرکے
دیکھنے آئے تھے وہ، اپنی محبّت کا اثر
کہنے کو یہ کہ، آئے ہیں عیادت کرنے
پستیِ حوصلۂ شوق کی اب ہے یہ صلاح
بیٹھ رہیے غَمِ ہجراں پہ قناعت...
غزل
سینہ خُوں سے بھرا ہُوا میرا
اُف یہ بدمست مے کدہ میرا
نا رسائی پہ ناز ہے جس کو
ہائے وہ شوقِ نارَسا میرا
عِشق کو مُنہ دِکھاؤں گا کیونکر
ہجر میں رنگ اُڑ گیا میرا
دلِ غم دِیدہ پر خُدا کی مار
سینہ آہوں سے چِھل گیا میرا
یاد کے تُند و تیز جھونکے سے
آج ہر داغ جَل اُٹھا میرا
یادِ ماضی عذاب...
غزل
یہ سِتَم اور ، کہ ہم پُھول کہیں خاروں کو
اِس سے تو آگ ہی لگ جائے سمن زاروں کو
ہے عبث فکرِ تلافی تجھے، اے جانِ وفا !
دُھن ہے اب اور ہی کُچھ ،تیرے طلبگاروں کو
تنِ تنہا ہی گُذاری ہیں اندھیری راتیں
ہم نے گبھراکے، پُکارا نہ کبھی تاروں کو
ناگہاں پُھوٹ پڑےروشنیوں کے جھرنے
ایک جھونکا ہی اُڑا...
غزل
جب سب کے دِلوں میں گھر کرے تُو
پِھر کیوں ہَمَیں در بَدر کرے تُو
یہ حال ہے شام سے تو اے دِل!
مُشکِل ہے کہ اب سَحر کرے تُو
آنکھوں میں نِشان تک نہ چھوڑے
خوابوں کی طرح سفر کرے تُو
اِتنا بھی گُریز اہلِ دِل سے
کوئی نہ کرے، مگر کرے تُو
خوشبُو ہو ، کہ نغمہ ہو، کہ تارا
ہر ایک کو، نامہ بر...
غزل.
اِسم تبدیلی سے کیا ہوتا ہے
عیب کب اِس سے چھپا ہوتا ہے
اچھے اوصاف ہوں سب پر ظاہر
جُھوٹ بھی سب پہ کُھلا ہوتا ہے
بات بے بات ہو تقرار جہاں
جہل پہ جہل ڈٹا ہو تا ہے
باز گشت اپنی سماعت پہ گراں
دہنِ جاہل کا رَٹا ہوتا ہے
وہ بھی کیا شخص ہے محِفل میں، خلؔش !
مَیں ہی قابل ، پہ ڈٹا ہوتا ہے...
غزل
کیوں نہ سرسبز ہو ہماری غزل
خُونِ دِل سے لِکھی ہے ساری غزل
جتنی پیاری ہے تیری یاد مجھے!
لب پہ آتی ہے ویسی پیاری غزل
سالہا سال رنج کھینچے ہیں
مَیں نے شیشے میں جب اُتاری غزل
جب بھی غُربت میں دِل اُداس ہُوا
مَیں تِرے ساتھ ہُوں، پُکاری غزل
دَمِ تخلیق پچھلی راتوں کو
یُوں بھی ہوتی ہے مجھ پہ...
غزل
جو بادشاہ، پُرسِشِ حالِ گدا کرے
اُس پر کبھی زوال نہ آئے خُدا کرے
حاصِل اگر ہو وحدَتِ نَوعِ بَشر کا عِلم
تو پِھر عَدُوئے جاں سے بھی اِنساں وَفا کرے
میرا بُرا جو چاہ رہا ہے، بہر نَفَس
اللہ ہر لِحاظ سے، اُس کا بَھلا کرے
ہم ساکنانِ کُوئے خرابات کی طرح
یارب! کبھی فقِیہ بھی ترکِ رِیا کرے...
آس محمد محسن
غزل
مَیں ہُوں حیراں یہ سِلسِلہ کیا ہے
آئنہ مجھ میں ڈُھونڈھتا کیا ہے
خود سے بیتاب ہُوں نکلنے کو
کوئی بتلائے راستہ کیا ہے
میں حبابوں کو دیکھ کر سمجھا
اِبتدا کیا ہے، اِنتہا کیا ہے
میں ہُوں یکجا ،تو پھر مِرے اندر
ایک مُدّت سے ٹُوٹتا کیا ہے
خود ہی تنہائیوں میں چِلّاؤں
خود ہی...
غزل
اُداس کر کے دَرِیچے نئے مکانوں کے
سِتارے ڈُوب گئے سبز آسمانوں کے
گئی وہ شب، جو کبھی ختم ہی نہ ہوتی تھی
ہوائیں لے گئیں اَوراق داستانوں کے
ہر آن برق چمکتی ہے، دِل دھڑکتا ہے
مِری قمیص پہ تِنکے ہیں آشیانوں کے
تِرے سکُوت سے وہ راز بھی ہُوئے افشا
کہ جِن کو کان ترستے تھے راز دانوں کے
یہ بات...
غزل.
مُمکن ہے اِلتجا میں ہماری اثر نہ ہو
ایسا نہیں کہ اُس کو ہماری خبر نہ ہو
خاک ایسی زندگی پہ کہ جس میں وہ بُت، مِرے
خواب و خیال میں بھی اگر جلوہ گر نہ ہو
وہ حُسن ہے سوار کُچھ ایسا حواس پر!
خود سے توکیا، اب اوروں سے ذکرِ دِگر نہ ہو
ہو پیش رفت خاک، مُلاقات پر ہی جب!
کھٹکا رہے یہ دِل میں...
غزل
کُچھ تو ہوکر دُو بَدُو، کُچھ ڈرتے ڈرتے کہہ دِیا
دِل پہ جو گُذرا تھا ، ہم نے آگے اُس کے کہہ دِیا
باتوں باتوں میں جو ہم نے، دردِ دِل کا بھی کہا !
سُن کے بولا، تُو نے یہ کیا بکتے بکتے کہہ دِیا
اب کہیں کیا اُس سے ہمدم ! دِل لگاتے وقت آہ
تھا جو کُچھ کہنا، سو وہ تو ہم نے پہلے کہہ دِیا
چاہ...
مُلاقات
یہ رات اُس درد کا شجر ہے
جو مجھ سے تجھ سے عظیم تر ہے
عظیم تر ہے کہ اِس کی شاخوں
میں لاکھ مشعل بَکف سِتاروں
کے کارواں گھِر کے کھو گئے ہیں
ہزار مہتاب اِس کے سائے
میں اپنا سب نُور رَو گئے ہیں
یہ رات اُس درد کا شجر ہے
جو مجھ سے تجھ سے عظیم تر ہے
مگر اِسی رات کے شجر سے
یہ چند لمحوں کے زرد...
غزل
قِصّے ہیں خموشی میں نِہاں اور طرح کے
ہوتے ہیں غَمِ دِل کے بَیاں اور طرح کے
تھی اور ہی کُچھ بات، کہ تھا غم بھی گوارا
حالات ہیں اب درپئے جاں اور طرح کے
اے را ہروِ راہِ وفا ! دیکھ کے چلنا
اِس راہ میں ہیں سنگِ گراں اور طرح کے
کھٹکا ہے جُدائی کا ، نہ ملنے کی تمنّا
دِل کو ہیں مِرے وہم و گُماں...
غزل
عبدالحلیم شرؔر
کیا سہل سمجھے ہو کہِیں دھبّا چھٹا نہ ہو
ظالم یہ میرا خُون ہے رنگِ حِنا نہ ہو
یا رب! مجھے ہے داغِ تمنّا بہت عزِیز
پہلوُ سے دِل جُدا ہو ،مگر یہ جُدا نہ ہو
راہیں نکالتا ہے یہی سوز و ساز کی !
پہلوُ میں دِل نہ ہو ،تو کوئی حوصلہ نہ ہو
تم اور وفا کرو، یہ نہ مانُوں گا میں کبھی...
غزل
اچھّا تمھارے شہر کا دستوُر ہو گیا
جِس کو گلے لگا لِیا ، وہ دُور ہو گیا
کاغذ میں دب کے مر گئے کیڑے کتاب کے
دِیوانہ بے پڑھے لِکھے مشہوُر ہو گیا
محلوں میں ہم نے کتنے سِتارے سجا دیئے
لیکن زمِیں سے چاند بہت دُور ہو گیا
تنہائیوں نے توڑ دی ہم دونوں کی انا!
آئینہ بات کرنے پہ مجبوُر ہو گیا...
نظم
اللہ جمیلُ و یحبُ الجمال
(اللہ حَسِین ہے اور حُسن سے محبّت کرتا ہے)
خالقِ حُسنِ کائنات ہے وہ
خالقِ کُلِّ ممکنات ہے وہ
خالقِ کائناتِ حُسن ہی حُسن
اُس کی ذات و صِفات حُسن ہی حُسن
حُسن سے مُنکشف نمودِ خُدا
حُسن ہی حُسن ہے وجودِ خُدا
سر بَسر حُسنِ نُورِ ذات ہے وہ
صاحبِ مظہَرِ صِفات ہے وہ...
غزل
پرتَوِ ساغرِ صہبا کیا تھا
رات اِک حشر سا برپا کیا تھا
کیوں جوانی کی مجھے یاد آئی
میں نے اِک خواب سا دیکھا کیا تھا
حُسن کی آنکھ بھی نمناک ہُوئی
عِشق کو آپ نے سمجھا کیا تھا
عِشق نے آنکھ جُھکا لی، ورنہ
حُُسن اور حُسن کا پردا کیا تھا
کیوں مجازؔ آپ نے ساغر توڑا
آج یہ شہر میں چرچا...
غزل
راہ دُشوار جس قدر ہوگی
جُستُجو اور مُعتبر ہوگی
آدمی آدمی پہ ہنستا ہے
اور کیا ذِلَّتِ بشر ہوگی
پتّھروں پر بھی حرف آئے گا
جب کوئی شاخ بے ثمر ہوگی
جاگ کر بھی نہ لوگ جاگیں گے
زندگی خواب میں بسر ہوگی
حُسن بڑھ جائےگا تکلّم کا
جس قدر بات مُختصر ہوگی
اعجاز رحمانی
غزل
بے اعتناعی کی بڑھتی ہُوئی سی یہ تابی
کہیں نہ جھونک دے ہم کو بجنگِ اعصابی
گئی نظر سے نہ رُخ کی تِری وہ مہتابی
لیے ہُوں وصل کی دِل میں وہ اب بھی بیتابی
مَیں پُھول بن کے اگر بُت سے اِک لِپٹ بھی گیا
زیادہ دِن تو میّسر رہی نہ شادابی
مِری نمُود و نمائش ہے خاک ہی سے ، مگر
سکُھا کے خاک...