فیض احمد فیضؔ ::::::یہ رات اُس درد کا شجر ہے :::::: Faiz Ahmad Faiz

طارق شاہ

محفلین




مُلاقات
یہ رات اُس درد کا شجر ہے
جو مجھ سے تجھ سے عظیم تر ہے
عظیم تر ہے کہ اِس کی شاخوں
میں لاکھ مشعل بَکف سِتاروں
کے کارواں گھِر کے کھو گئے ہیں
ہزار مہتاب اِس کے سائے
میں اپنا سب نُور رَو گئے ہیں
یہ رات اُس درد کا شجر ہے
جو مجھ سے تجھ سے عظیم تر ہے
مگر اِسی رات کے شجر سے
یہ چند لمحوں کے زرد پتّے
گِرے ہیں اور تیرے گیسوؤں میں
اُلجھ کے گُلنار ہو گئے ہیں
اِسی کی شبنم سے خامشی کے
یہ چند قطرے، تِری جبیں پر
برس کے ہیرے پرو گئے ہیں
۲
بہت سِیہ ہے یہ رات، لیکن
اِسی سِیاہی میں رُونما ہے
وہ نہر ِخُوں جو مِری صدا ہے
اُسی کے سائے میں نُور گر ہے
وہ موجِ زر جو تِری نظر ہے
وہ غم! جو اِس وقت تیری بانہوں
کے گُلسِتاں میں سلگ رہا ہے
وہ غم جو اِس رات کا ثمر ہے
کُچھ اور تپ جائے اپنی آہوں
کی آنچ میں تو یہی شرر ہے
ہر اِک سِیہ شاخ کی کماں سے
جِگر میں ٹُوٹے ہیں تِیر جتنے
جِگر سے نَوچے ہیں اور ہر اِک
کا ہم نے تیشہ بنا لِیا ہے
۳
اَلَم نصیبوں، جِگر فگاروں
کی صُبح افلاک پر نہیں ہے
جہاں پہ ہم تم کھڑے ہیں دونوں
سَحر کا روشن اُفق یہیں ہے
یہیں پہ غم کے شرار کُھل کر
شفق کا گُلزار بن گئے ہیں
یہیں پہ قاتِل دُکھوں کے تیشے
قطار اندر قطار کرنوں
کے آتشیں ہار بن گئے ہیں
یہ غم جو اس رات نے دِیا ہے
غَم ِسَحر کا یقیں بنا ہے
یقیں جو غم سے کریم تر ہے
سَحر جو شب سے عظیم تر ہے

فیض احمد فیضؔ
 
Top