غزل
آئیں اگر وہ یاد تو مرتے نہیں ہیں ہم
حالت خراب دِل کی گو کرتے کہیں ہیں کم
دِل خُون ہے اگرچہ شب و روز ہجر میں
آنکھوں کو اپنی شرم سے کرتے نہیں ہیں نم
ایسا بُجھادِیا ہَمَیں فُرقت کی دُھوپ نے
کوشِش رہے ہزار نِکھرتے کہیں ہیں ہم
اِک پَل نہ ہوں گوارہ کسی طور یُوں ہَمَیں
دِل پر سوار ہو کے...
غزل
خوار و رُسوا تھے یہاں اہلِ سُخن پہلے بھی
ایسا ہی کُچھ تھا زمانے کا چلن ، پہلے بھی
مُدّتوں بعد تجھے دیکھ کے یاد آتا ہے
مَیں نے سِیکھا تھا لہُو رونے کا فن پہلے بھی
ہم نے بھی پایا یہاں خِلعَتِ سنگ و دُشنام
وضعدار ایسے ہی تھے اہلِ وطن پہلے بھی
دِلنواز آج بھی ہے نِیم نِگاہی تیری
دِل شکن...
غزل
شرح ِبے دردئ حالات نہ ہونے پائی
اب کے بھی، دِل کی مدارات نہ ہونے پائی
پِھر وہی وعدہ، جو اِقرار نہ ہونے پایا !
پِھروہی بات، جو اثبات نہ ہونے پائی
پِھر وہ پروانے جنھیں اذنِ شہادت نہ مِلا
پِھر وہ شمعیں، کہ جنھیں رات نہ ہونے پائی
پِھر وہی جاں بہ لَبی، لذَّتِ مے سے پہلے!
پِھر وہ محفِل، جو...
شفیق خلش
غزل
سائے ہیں بادلوں کے وہ، چَھٹتے نہیں ذرا
لا لا کے غم سروں پہ یہ، تھکتے نہیں ذرا
کیسے قرار آئے دلِ بے قرار کو
گھر سے اب اپنے وہ، کہ نکلتے نہیں ذرا
کیا وہ بچھڑگئے، کہ خُدائی بچھڑ گئی
دُکھ اب ہماری ذات کے بٹتے نہیں ذرا
سُوجھے کوئی نہ بات ہَمَیں آپ کے بغیر
موسم تخیّلوں کے بدلتے نہیں...
غزل
چہرۂ وقت سے اُٹّھے گا نہ پردا کب تک
پسِ اِمروز رہے گا، رُخِ فردا کب تک
اُس کی آنکھوں میں نمی ہے، مِرے ہونٹوں پہ ہنسی
میرے اللہ! یہ نیرنگِ تماشا کب تک
یہ تغافُل ، یہ تجاہل ، یہ سِتم ، یہ بیداد
کب تک ، اے خانہ براندازِ تمنّا !کب تک
بن گیا گردشِ دَوراں کا نِشانہ آخر
لشکرِ وقت سے لڑتا دلِ...