طارق شاہ
محفلین

غزل
یہ سِتَم اور ، کہ ہم پُھول کہیں خاروں کو
اِس سے تو آگ ہی لگ جائے سمن زاروں کو
ہے عبث فکرِ تلافی تجھے، اے جانِ وفا !
دُھن ہے اب اور ہی کُچھ ،تیرے طلبگاروں کو
تنِ تنہا ہی گُذاری ہیں اندھیری راتیں
ہم نے گبھراکے، پُکارا نہ کبھی تاروں کو
ناگہاں پُھوٹ پڑےروشنیوں کے جھرنے
ایک جھونکا ہی اُڑا لے گیا اندھیاروں کو
سارے اِس دَور کی مُنہ بولتی تصوِیریں ہیں
کوئی دیکھے مِرے دِیوان کے کِرداروں کو
نالۂ آخرِ شب کِس کو سُناؤں ناصؔر
نیند پیاری ہے مِرے دَور کے فنکاروں کو
سیّد ناصر رضا کاظمی