طارق شاہ
محفلین
غزل
خواجہ حیدر علی آتشؔ
خُدا کرے نہ تمھیں میرے حال سے واقف
نہ ہو مزاجِ مبارک ملال سے واقف
نہیں جو روز شب وماہ وسال سے واقف
وہی ہے خُوب زمانےکے حال سے واقف
زباں سے کِس کی مہِ چاردہ نہیں سُنتے!
زمانہ ہے تِرے فضل و کمال سے واقف
دُعائے خیر ، یہی ہے مری حَسِینوں کو
نہ ہو کمال تمھارا زوال سے واقف
فسانہ طُورِ تجلّی کا سُن کے، کان کُھلے!
نہ تھے کرشمۂ حُسن و جمال سے واقف
فنا کے بعد کُھلا دِل کو عِشق کا پردہ
تمام ہو کے ہُوئے ہم کمال سے واقف
ازل سے محرمِ رازِ پَری ہُوں مَیں مجنُوں
میرے فرشتے نہیں میرے حال سے واقف
نہ چند روزِ جُدائی بھی مُنقَضی ہوں گے
کہاں فراق، ہُوئے جب وصال سے واقف
رقیب مبتذل اُس گُل عذار کے ہوں
یہ خار و خس نہیں آتشؔ کے حال سے واقف
خواجہ حیدر علی آتشؔ