غزل بشکریہ ذاکر حسین ضیائی صاحب۔
يہ کیسا گيت ہے اے نے نوازِ عالم ہو
کہ نے سے راگ کے بدلے ٹپک رہا ہے لہو
بہارِ صبح کے نغمہ گروں کو کيا معلوم ؟
گزر گيا گل و غنچہ پہ کيا عزابِ نمو ؟
اگر نقاب الٹ دے تو کيا قيامت ہو
وہ جانِ گل کہ کبھی رنگ ہے کبھی خوشبو
مئے نشاط انڈيلی تھی ميں نے ساغر...
مُونہہ آئی بات نہ رہندی ہے
`
جھوٹھ آکھاں تے کچھ بچدا ہے
سچ آکھیاں بھانبڑمچدا ہے
جی دوہاں گلاں توں جچدا ہے
جچ جچ کے جیبھا کہندی ہے
مُونہہ آئی بات نہ رہندی ہے
جس پایا بھید قلندر دا
راہ کھوجیا اپنے اندر دا
او واسی ہے سُکھ مندر دا
جتھے کوئی نہ چڑھدی لہندی ہے
مُونہہ آئی بات نہ رہندی ہے
اک لازم...
غزل بشکریہ ذاکر حسین ضیائی صاحب۔
جہاں معبود ٹھہرايا گيا ہوں
وہيں سولی پہ لٹکايا گيا ہوں
سنا ہر بار ميرا کلمہء صدق
مگر ہر بار جھٹلايا گيا ہوں
عجب اک سّرِ مبہم ہے مری ذات
نہ سمجھا ہوں نہ سمجھايا گيا ہوں
مرے نقشِ قدم نظروں سے اوجھل
مگر ہر موڑ پر پايا گيا ہوں
کبھی ماضی کا...
غزل
ہر آن نیا زخم، نئی سینہ زنی ہے
اے قہرِ غمِ ہِجر، مری جاں په بنی ہے
اندوہ و مِحن، رنج و الَم، تُہمت و بُہتان
کیا دِل کی تجارت میں یہی آمَدَنی ہے؟
جِس شخص کو اِک دید بھی تیری ہو میسّر
مسعوُد ہے، خوش بخت ہے، قِسمت کا دھنی ہے
کرتا ہے تری بات کا یہ دِل تو بهروسا
صبر آزما لیکن تری...
غزل بشکریہ ظفر خاں صاحب، یاور ماجد صاحب۔
اک چادرِ بوسیدہ میں دوش پہ رکھتا ہوں
اور دولتِ دنیا کو پاپوش پہ رکھتا ہوں
کیفیت ِ بے خبری کیا چیز ہے کیا جانوں
بنیاد ہی ہونے کی جب ہوش پہ رکھتا ہوں
جو قرض کی مے پی کر تسخیرِ سخن کر لے
ایماں اُسی دلی کے مے نوش پہ رکھتا ہوں
آنکھوں کو ٹکاتا ہوں...
پردہ اٹھا کر رخ کو عیاں اس شوخ نے جس ہنگام کیا
ہم تو رہے مشغول ادھر یاں عشق نے دل کا کام کیا
آگئے جب صیاد کے بس میں سوچ کیے پھر حاصل کیا
اب تو اسی کی ٹھہری مرضی جن نے اسیرِ دام کیا
چشم نے چھینا پلکوں نے چھیدا، زلف نے باندھا دل کو آہ
ابرو نے ایسی تیغ جڑی جو قصہ ہے سب اتمام کیا
سخت خجل ہیں...
جب سرِ زلف تا کمر پہونچا
اس کمر کو بہت ضرر پہونچا
ہلکی پہونچی سے بھی لچکتا ہے
نازک اس کا ہے اس قدر پہونچا
اے نسیمِ سحر تو اس گل کو
بے کلی کی مری خبر پہونچا
کہیو اے جاں ، نظیر کو تیرے
رنجِ ہجر اب تو بیشتر پہونچا
یا بُلا لے اسے اِدھر اے جاں
یا تو ہی آپ کو ادھر پہونچا
قطعہ
نامۂ...
مینارِ پاکستان کی لوحوں کا نیا نوشتہ
عجیب باغوں کی سر زمیں ہے ، جسے مرے خواب سینچتے ہیں
یہ خواب ، صحرا کی گل بدن داستاں سرائوں کی فاختائیں
یہ منجمد فاختائیں جیسے حنوط لمحوں کے سرد تابوت
زرد سورج کی نیلی بارش میں کانپتے ہیں
یہ باغ ، گوتم کے گیان کی روشنی کے پیپل
یہ قافلوں کے شرار آثار...
یہ غزل خاص طور پر توصیف امین صاحب کی نذر۔
شہروں ملکوں میں جو یہ میر کہاتا ہے میاں
دیدنی ہے پہ بہت کم نظر آتا ہے میاں
عالم آئینہ ہے جس کا وہ مصور بے مثل
ہائے کیا صورتیں پردے میں بناتا ہے میاں
قسمت اس بزم میں لائی کہ جہاں کا ساقی
دے ہے مے سب کو ہمیں زہر پلاتا ہے میاں
ہو کے عاشق ترے، جان و...
بس کہ نکلی نہ کوئی جی کی ہوس
اب ہوں میں اور بے دلی کی ہوس
کہ رہے دل نہ بے قراریِ دل
عاشقی ہو نہ عاشقی کی ہوس
وہ ستمگر بھی ہے عجیب کوئی
کیوں ہوئی دل کو پھر اسی کی ہوس
پھرتی رہتی ہے آدمی کو لئے
خوار دنیا میں آدمی کی ہوس
دونوں یکساں ہیں بے خودی میں ہمیں
فکرِ غم ہے نہ خمریِ کی ہوس...
محتسب آیا بزم میں، ساقی لے آ شراب کو
یہ نہ سمجھ کہ شب پرک دیکھے گی آفتاب کو
آنکھوں کا میری ان دنوں، یارو ہے طرفہ ماجرا
میں تو روؤں ہوں اُن کے تئیں ہنستی ہیں یہ سحاب کو
دم ہی رہا یہ پیرہن، تن تو ہو اشک بہہ گیا
جن نے نہ دیکھا ہو مجھے، دیکھے وہ جا حباب کو
پند سے تیری زاہدا ! حال مرا یہ مے سے ہے...
اے نگارانِ خوب رُو، آؤ
ہو کے دیکھو تو دُو بدو، آؤ
یوں نہ دیکھو کہ راہرو ہو گا
تھی تمہاری ہی جستجو، آؤ
اے غزالانِ خوش خرام، رُکو
اِک ذرا دیر گفتگو، آؤ
وہی لب ہائے گل چکاں ہے ہے
پھر وہی زلفِ مشک بُو، آؤ
مصحفِ رُخ، کلامِ پاک سہی
ہم بھی بیٹھے ہیں باوضو، آؤ
کیا سمجھتے ہو جام خالی ہے؟
پھر...
سب سے مرا یارانہ.... اناالعشق اناالعشق
کوئی نہیں بیگانہ .......اناالعشق اناالعشق
اک روز مجھے دار پہ....... منصور نے پوچھا
تم نے مجھے پہچانا ... اناالعشق اناالعشق
ہر آنکھ ھے وارفتہِ نظارہ........ مجھے دیکھ
اے نرگسِ مستانہ ..... اناالعشق اناالعشق
عاشق ھو کہ معشوق سبھی روپ ہیں میرے
ھو شمع کہ...
اس غزل سے متاثر ہو کر (نذرِ سودا) کے عنوان سے فیض نے بھی ایک غزل لکھی تھی جو فیض کے مجموعہ دستِ صبا میں موجود ہے۔
کیوں میں تسکینِ دل، اے یار! کروں یا نہ کروں؟
نالہ جا کر پسِ دیوار کروں یا نہ کروں؟
سن لے اک بات مری تو کہ رمق باقی ہے
پھر سخن تجھ سے ستم گار کروں یا نہ کروں؟
ناصحا! اُٹھ...