ہر آن نیا زخم، نئی سینہ زنی ہے ۔ راجیو چکرورتی ناداں

فرخ منظور

لائبریرین
غزل

ہر آن نیا زخم، نئی سینہ زنی ہے
اے قہرِ غمِ ہِجر، مری جاں په بنی ہے

اندوہ و مِحن، رنج و الَم، تُہمت و بُہتان
کیا دِل کی تجارت میں یہی آمَدَنی ہے؟

جِس شخص کو اِک دید بھی تیری ہو میسّر
مسعوُد ہے، خوش بخت ہے، قِسمت کا دھنی ہے

کرتا ہے تری بات کا یہ دِل تو بهروسا
صبر آزما لیکن تری پیماں شِکنی ہے!

اِک وصل کی حسرت ہے، سو وہ دِل میں ہے پِنہاں
اُس چیز کا کیا ذِکر کہ جو نا شُدَنی ہے؟

پژمُرده شجر، زرد کلی، شاخ بُریدہ
گُلشن میں عجب منظرِ بے پیرہنی ہے

اُس شہر کا ساکِن ہوں، جہاں حسبِ قوانین
جو طالبِ حق ہے، وہی گردن زَدَنی ہے!

میں شیفتۂ خاکِ رہِ قریۂ جاناں!
دُنیا کو گُماں یہ کہ مُحِبّ الوَطنی ہے!

کِس طرح اثر لائیے ہر شعر میں 'ناداں'؟
"یہ کارِ سُخن سلسلۂ کوہکنی ہے"

(راجیو چکرورتی ناداں)
 

محمد وارث

لائبریرین
ہر ایک شعر خوبصورت ہے۔ قافیے میں الفاظ کے صحیح تلفظ کا باندھنا شاعر کے وسیع مطالعہ اور زبان پر مہارت کی دلیل ہے، لاجواب!
 
Top