غزل
تیرِ قاتل کا یہ احساں رہ گیا
جائے دل سینہ میں پیکاں رہ گیا
کی ذرا دستِ جنوں نے کوتہی
چاک آ کر تا بداماں رہ گیا
دو قدم چل کر ترے وحشی کے ساتھ
جادۂ راہِ بیاباں رہ گیا
قتل ہو کر بھی سبکدوشی کہاں
تیغ کا گردن پہ احساں رہ گیا
ہم تو پہنچے بزمِ جاناں تک مگر
شکوۂ بیدادِ درماں رہ گیا
کیا قیامت...
اثر کے پیچھے دلِ حزیں نے نشان چھوڑا نہ ہر کہیں کا
گئے ہیں نالے جو سوئے گردوں تو اشک نے رخ کیا زمیں کا
بھلی تھی تقدیر یا بری تھی یہ راز کس طرح سے عیاں ہو
بتوں کو سجدے کئے ہیں اتنے کہ مٹ گیا سب لکھا جبیں کا
وہی لڑکپن کی شوخیاں ہیں وہ اگلی ہی سی شرارتیں ہیں
سیانے ہوں گے تو ہاں بھی ہو گی ابھی تو...
میرا رانجھا ہن کوئی ہور (رہاؤ)
تخت منور بانگاں ملیاں
تاں سنیاں تخت لاہور
عشقے مارے ایویں پھردے
جیویں جنگل وچ ڈھور
رانجھا تخت ہزارے دا سائیں
ہُن اوتھوں ہویا چور
بلھا شاہ اساں مرنا ناہیں
گور پیا کوئی ہور
(بلھے شاہ)
رہاؤ ایسے بول کو کہتے ہیں جو کافی گاتے وقت بار بار گایا جائے۔ جیسے گیتوں میں عام...
غزل
شغل بہتر ہے عشق بازی کا
کیا حقیقی و کیا مجازی کا
ہر زباں پر ہے مثلِ شانہ مدام
ذکر اُس زلف کی درازی کا
ہوش کے ہاتھ میں عناں نہ رہی
جب سوں دیکھا سوار تازی کا
تیں دکھا کر اُپَس کے مُکھ کی کتاب
علم کھویا ہے دل سوں قاضی کا
آج تیری نگہ نے مسجد میں
ہوش کھویا ہے ہر نمازی کا
گر نہیں راز فقر سوں...
غزل
جادۂ راہِ عدم ہے رہِ کاشانۂ عشق
ملک الموت ہیں دربان درِ خانۂ عشق
مرکزِ خاک ہے دُردِ تہِ پیمانۂ عشق
آسماں ظرف بر آوردۂ میخانۂ عشق
کم بلندی میں نہیں عرش سے کاشانۂ عشق
دونوں عالم ہیں دو مصراع درِ خانۂ عشق
ہے جو واللیل سرا پردۂ کاشانۂ عشق
سورۂ شمس ہے قندیل درِ خانۂ عشق
دل مرا شیشہ...
دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں
گلوکار: مہدی حسن
شاعر: مرزا غالب
دائم پڑا ہُوا ترے در پر نہیں ہُوں میں
خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہُوں میں
کیوں گردشِ مدام سے گبھرا نہ جائے دل
انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہُوں میں
یا رب، زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے؟
لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرّر نہیں ہُوں...
شامِ فراق اب نہ پوچھ آئی اور آ کے ٹل گئی
گلوکارہ: فریدہ خانم
شاعر: فیض احمد فیض
شامِ فراق، اب نہ پوچھ، آئی اور آکے ٹل گئی
دل تھا کہ پھر بہل گیا، جاں تھی کہ پھر سنبھل گئی
بزمِ خیال میں ترے حسن کی شمع جل گئی
درد کا چاند بجھ گیا، ہجر کی رات ڈھل گئی
جب تجھے یاد کرلیا، صبح مہک مہک اٹھی
جب ترا...
ہارٹ اٹیک (نظم) از فیض احمد فیض بزبان ضیا محی الدین
ہارٹ اٹیک
درد اتنا تھا کہ اس رات دلِ وحشی نے
ہر رگِ جاں سے الجھنا چاہا
ہر بُنِ مُو سے ٹپکنا چاہا
اور کہیں دور ترے صحن میں گویا
پتا پتا مرے افسردہ لہو میں دھل کر
حسنِ مہتاب سے آزردہ نظر آنے لگا
میرے ویرانۂ تن میں گویا
سارے دُکھتے ہوئے ریشوں...
ہم کہ عشّاق نہیں ۔ ۔ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم کہ عشّاق نہیں ، اور کبھی تھے بھی نہیں
ہم تو عشّاق کے سائے بھی نہیں!
عشق اِک ترجمۂ بوالہوسی ہے گویا
عشق اپنی ہی کمی ہے گویا!
اور اس ترجمے میں ذکرِ زر و سیم تو ہے
اپنے لمحاتِ گریزاں کا غم و بیم تو ہے
لیکن اس لمس کی لہروں کا کوئی ذکر نہیں
جس سے بول اٹھتے ہیں...
خود سے ہم دور نکل آئے ہیں
میں وہ اقلیم کہ محروم چلی آتی تھی
سالہا دشت نوردوں سے، جہاں گردوں سے
اپنا ہی عکسِ رواں تھی گویا
کوئی روئے گزراں تھی گویا
ایک محرومیِ دیرینہ سے شاداب تھے
آلام کے اشجار وہاں
برگ و بار اُن کا وہ پامال امیدیں جن سے
پرسیِ افشاں کی طرح خواہشیں آویزاں تھیں،
کبھی ارمانوں کے...
غزل
لاکھوں فلک کی آنکھیں سب مند گئیں ادھر سے
نکلی نہ ناامیدی کیونکر مری نظر سے
برسے ہے عشق یاں تو دیوار اور در سے
روتا گیا ہے ہر ایک جوں ابر میرے گہر سے
جو لوگ چلتے پھرتے یاں چھوڑ کر گئے تھے
دیکھا نہ ان کو اب کے آئے جو ہم سفر سے
قاصد کسو نے مارا خط راہ میں سے پایا
جب سے سنا ہے ہم نے وحشت ہے...
غزل
گُل نے بہت کہا کہ چمن سے نہ جائیے
گُلگشت کو جو آئیے آنکھوں پہ آئیے
میں بے دماغ کر کے تغافل چلا کیا
وہ دل کہاں کے ناز کسو کے اٹھائیے
صحبت عجب طرح کی پڑی اتفاق ہے
کھو بیٹھیے جو آپ کو تو اوسکو پائیے
رنجیدگی ہماری تو پر سہل ہے ولے
آزردہ دل کسو کو نہ اتنا ستائیے
خاطر ہی کے علاقے کی سب ہیں...