ولی دکنی شغل بہتر ہے عشق بازی کا ۔ ولی دکنی

فرخ منظور

لائبریرین
غزل

شغل بہتر ہے عشق بازی کا
کیا حقیقی و کیا مجازی کا

ہر زباں پر ہے مثلِ شانہ مدام
ذکر اُس زلف کی درازی کا

ہوش کے ہاتھ میں عناں نہ رہی
جب سوں دیکھا سوار تازی کا

تیں دکھا کر اُپَس کے مُکھ کی کتاب
علم کھویا ہے دل سوں قاضی کا

آج تیری نگہ نے مسجد میں
ہوش کھویا ہے ہر نمازی کا

گر نہیں راز فقر سوں آگاہ
فخر بے جا ہے فخرِ رازی کا

اے ولی سرو قد کوں دیکھوں گا
وقت آیا ہے سرفرازی کا

(ولی دکنی)
 

فاتح

لائبریرین
واہ۔ آج تک اس کا محض مطلع ہی پڑھا تھا مگر آپ نے مکمل غزل پڑھا دی۔ شکریہ
اُپَس کا کیا مطلب ہے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
شغل بہتر ہے عشق بازی کا
کیا حقیقی و کیا مجازی کا

گر نہیں راز فقر سوں آگاہ
فخر بے جا ہے فخرِ رازی کا

لاجواب!

شکریہ جناب شیئر کرنے کیلیے۔
 
ولی دکنی نظریہ وحدت الوجود پر یقین رکھنے والے انسان تھے آپ کی پیش کردہ غزل کے کچھ اشعار کو مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ میرے ذہن کی لوح پر جو اشعار روشن ہوئے پیش خدمت ہیں۔
شغل بہتر ہے عشق بازی کا
کیا حقیقی و کیا مجازی کا
سید جعفر شاہ المعروف بہ بندہ نواز گیسو دراز رحمۃ اللہ علیہ کے دراز گیسو جب نصیر الدین چراغ رحمۃ اللہ علیہ کی پالکی میں پھنس گئے اور آپ باوجود تکلیف کے کافی دور تک پالکی کو اپنے کندھے پر اٹھا کر چلتے رہے اور جب منزل پر پہنچ کر نصیر الدین چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کو اس بات کی خبر ہوئی تو آپ کی زبان حق نما سے فی البدیہہ یہ اشعار جاری ہوئے
ہر کہ مرید سیدِ گیسو دراز شد
واللہ خلافِ نیست کے اُو عشق باز شد
ہر زباں پر ہے مثلِ شانہ مدام
ذکر اُس زلف کی درازی کا
سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اس کی
سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں (فراز)
ہوش کے ہاتھ میں عناں نہ رہی
جب سوں دیکھا سوار تازی کا
خبرم رسید امشب کہ نگار خواہی آمد
سر من فدائے راہے کہ سوار خواہی آمد
تیں دکھا کر اُپَس کے مُکھ کی کتاب
علم کھویا ہے دل سوں قاضی کا
دیکھو اُسے ہنگامِ برافگندہ نقابی
اک مصحفِ تابندہ ہے یا روئے کتابی(نصیر الدین نصیر گولڑوی)
آج تیری نگہ نے مسجد میں
ہوش کھویا ہے ہر نمازی کا
یارِ من گر نیم شب بےنقاب آئد بروں
زاہدِ صد سالہ از مسجد خراب آئد بروں (جامی)
 
Top