نتائج تلاش

  1. فرخ منظور

    تبسم ایک زرتشتی لڑکی سے ۔ صوفی تبسم

    ایک زرتشتی لڑکی سے کیا عجب باہمی رقابت ہے کیا عجب شانِ دوست داری ہے میں بھی اِک آگ کا پجاری ہوں تُو بھی اِک آگ کی پجاری ہے ہے مگر تیری آگ چند شرر اور مری آگ آتشیں پیکر تُو تو ہے روشنی کی شیدائی اور پروانہ حُسن کا ہوں میں تُو فقط دیکھتی ہے شعلوں کو اور شعلوں میں جل رہا ہوں میں (صوفی تبسم)
  2. فرخ منظور

    میر جدا جو پہلو سے وہ دلبر ِیگانہ ہوا ۔ میر تقی میر

    جدا جو پہلو سے وہ دلبرِ یگانہ ہوا طپش کی یاں تئیں دل نے کہ دردِ شانہ ہوا جہاں کو فتنہ سے خالی کبھو نہیں پایا ہمارے وقت میں تو آفتِ زمانہ ہوا خلش نہیں کسو خواہش کی رات سے شاید سرشک یاس کے پردے میں دل روانہ ہوا ہم اپنے دل کی چلے دل ہی میں لیے یاں سے ہزار حیف سرِ حرف اس سے وا نہ ہوا کھلا نشے...
  3. فرخ منظور

    میر دل جو زیرِ غبار اکثر تھا ۔ میر تقی میرؔ

    دل جو زیرِ غبار اکثر تھا کچھ مزاج ان دنوں مکدّر تھا اس پہ تکیہ کیا تو تھا لیکن رات دن ہم تھے اور بستر تھا سرسری تم جہان سے گذرے ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا دل کی کچھ قدر کرتے رہیو تم یہ ہمارا بھی ناز پرور تھا بعد اِک عمر جو ہوا معلوم دل اس آئینہ رو کا پتھر تھا بار سجدہ ادا کیا تہِ تیغ کب سے...
  4. فرخ منظور

    میر کب تلک یہ ستم اٹھائیے گا ۔ میر تقی میرؔ

    کب تلک یہ ستم اٹھائیے گا ایک دن یوں ہی جی سے جائیے گا شکلِ تصویرِ بے خودی کب تک کسو دن آپ میں بھی آیئے گا سب سے مل چل کہ حادثے سے پھر کہیں ڈھونڈا بھی تو نہ پایئے گا نہ موئے ہم اسیری میں تو نسیم کوئی دن اور باؤ کھایئے گا کہیے گا اس سے قصۂ مجنوں یعنی پردے میں غم سنایئے گا اس کے پابوس کی توقع...
  5. فرخ منظور

    میر بارہا گورِ دل جھنکا لایا ۔ میر تقی میرؔ

    بارہا گورِ دل جھنکا لایا اب کے شرطِ وفا بجا لایا قدر رکھتی نہ تھی متاعِ دل سارے عالم میں مَیں دکھا لایا دل کہ اِک قطرہ خوں نہیں ہے بیش ایک عالم کے سر بلا لایا سب پہ جس بار نےگِرانی کی٭ اُس کو یہ ناتواں اُٹھا لایا دل مجھے اس گلی میں لے جا کر اور بھی خاک میں ملا لایا ابتدا ہی میں مر گئے سب...
  6. فرخ منظور

    میر تابہ مقدور انتظار کیا ۔ میر تقی میر

    تابہ مقدور انتظار کیا دل نے اب زور بے قرار کیا دشمنی ہم سے کی زمانےنے کہ جفا کار تجھ سا یار کیا یہ توہّم کا کارخانہ ہے یاں وہی ہے جو اعتبار کیا ایک ناوک نے اس کی مژگاں کے طائرِ سدرہ تک شکار کیا صد رگ ِجاں کو تاب دے باہم تیری زلفوں کا اک تار کیا ہم فقیروں سے بے ادائی کیا آن بیٹھے جو تم نے...
  7. فرخ منظور

    میر گُل کو محبوب ہم قیاس کیا ۔ میر تقی میرؔ

    گُل کو محبوب ہم قیاس کیا فرق نکلا بہت جو باس کیا دل نے ہم کو مثالِ آئینہ ایک عالم کا روشناس کیا کچھ نہیں سوجھتا ہمیں اُس بن شوق نے ہم کو بے حواس کیا عشق میں ہم ہوئے نہ دیوانے قیس کی آبرو کا پاس کیا دَور سے چرخ کے نکل نہ سکے ضعف نے ہم کو مور طاس کیا صبح تک شمع سر کو دھنتی رہی کیا پتنگے نے...
  8. فرخ منظور

    میر منہ تکا ہی کرے ہے جِس تِس کا ۔ میر تقی میرؔ

    منہ تکا ہی کرے ہے جِس تِس کا حیرتی ہے یہ آئینہ کس کا شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہے دل ہوا ہے چراغ مفلس کا تھے بُرے مغ بچوں کے تیور لیک شیخ مے خانہ سے بھلا کھسکا داغ آنکھوں سے کھل رہے ہیں سب ہاتھ دستہ ہوا ہے نرگس کا قطعہ بحر کم ظرف ہے بسانِ حباب کاسہ لیس اب ہوا ہے تُو جس کا فیض اے ابر، چشمِ تر...
  9. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی رشتۂ جام و سبُو ۔ مصطفیٰ زیدی

    رشتۂ جام و سبُو جانے کب ابر سے نکلے مرا کھویا ہوا چاند جانے کب مجلسِ ارباب ِوفا روشن ہو راستے نور طلب شامِ سفر عکس ہی عکس ڈوبتے، کانپتے ، سہمے ہوئے، بجھتے ہوئے دل ورد کا بوجھ اٹھائے ہوئے گھبرائے ہوئے صبح کے کفش زدہ رات کے ٹھکرائے ہوئے جانے کب حلقۂ گرداب سے ابھرے ساحل سر پٹکتی ہوئی موجوں کا...
  10. فرخ منظور

    غالب سیرِ آنسوئے تماشا ہے طلب گاروں کا ۔ مرزا غالب

    سیرِ آنسوئے تماشا ہے طلب گاروں کا خضر مشتاق ہے اس دشت کے آواروں کا سر خطِ بند ہوا، نامہ گنہگاروں کا خونِ ہُدہُد سے لکھا نقش گرفتاروں کا فرد آئینہ میں بخشیں شکنِ خندۂ گُل دلِ آزردہ پسند، آئینہ رخساروں کا داد خواہِ تپش و مہر خموشی بر لب کاغذِ سرمہ ہے جامہ، تیرے بیماروں کا وحشتِ نالہ، بہ...
  11. فرخ منظور

    میر غمزے نے اس کے چوری میں دل کی ہنر کیا ۔ میر تقی میر

    غمزے نے اس کے چوری میں دل کی ہنر کیا اس خانماں خراب نے آنکھوں میں گھر کیا رنگ اڑ چلا چمن میں گلوں کا تو کیا نسیم ہم کو تو روزگار نے بے بال و پر کیا نافع جو تھیں مزاج کو اول سو عشق میں آخر انھیں دواؤں نے ہم کو ضرر کیا کیا جانوں بزمِ عیش کہ ساقی کی چشم دیکھ میں صحبتِ شراب سے آگے سفر کیا جس دم...
  12. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی بے سمتی ۔ مصطفیٰ زیدی

    بے سمتی گئیر بدلتے ہوئے، منہ سے پھینک کر سگرٹ ڈرائیور نے ٹریفک کو ماں کی گالی دی کہا، حضور کہاں کیڈلک، کہاں پیجُو کہاں حکایتِ شیریں دہان و شہد لباں کہ ایک سیر شکر کا نہ مل سکا پرمٹ کہ دفتروں کو چلاتے ہیں تلخ گو بابو گمان بن گئی تہذیبِ رستم و سہراب حکومتوں نے بہ حقِ خزانہ ضبط کیے رموزِ کیسۂ...
  13. فرخ منظور

    عمراں لنگھیاں پباں بھار ۔ مظہر ترمذی

    گاون ہلے نہ وس وے کالیا عمراں لنگھیاں پباں بھار کدے نہ سُکھ سنیہا گھلیا پھُلاں دے رنگ کالے سُرخ گلاباں دے موسم وچ پھُلاں دے رنگ کالے رُڑھدے رُڑھدے موت دے شوہ دریاواں اندر کدیں نہ کنڈھے لگے اندرو اندریں وگدا رہندا پانی درد حیاتی دا ساڈیاں عُمراں توں وی وڈی عمر اے تیری ہلے نہ وس وے کالیا (مظہر...
  14. فرخ منظور

    جگر جان کر منجملۂ خاصانِ مے خانہ مجھے ۔ جگر مراد آبادی

    جان کر منجملۂ خاصانِ مے خانہ مجھے مُدّتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے ننگِ مے خانہ تھا میں ساقی نے یہ کیا کر دیا پینے والے کہہ اُٹھے "یا پیرِ مے خانہ" مجھے سبزہ و گل، مو ج و دریا، انجم و خورشید و ماہ اِک تعلق سب سے ہے لیکن رقیبانہ مجھے زندگی میں آ گیا جب کوئی وقتِ امتحاں اس نے دیکھا ہے...
  15. فرخ منظور

    نصیر الدین نصیر آفت ہے شبِ غم کی سیاہی کا اثر بھی ۔ پیرنصیر الدین نصیر

    آفت ہے شبِ غم کی سیاہی کا اثر بھی دُھندلے سے نظر آتے ہیں انوارِ سَحَر بھی دل ہی نہیں ، تصویر ہے غم کی مرا گھر بھی حالات کا آئینہ ہیں دیوار بھی ، در بھی ہاں، صدقِ طلب آپ ہی تمہیدِ کرم ہیں نکلے جو دُعا دل سے تو کرتی ہے اثر بھی ہم بھی ہیں طلب گار ، تری بزم سلامت ساقی! ترے قربان ، کوئی جام اِدھر...
  16. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی نہاں ہے سب سے مِرا درد ِ سینۂ بیتاب ۔ مصطفیٰ زیدی

    نہاں ہے سب سے مِرا دردِ سینۂ بیتاب سوائے دِیدۂ بےخوابِ انجُم و مہ تاب تمہیں تو خیر مِرے غم کدے سے جانا تھا کہاں گئیں مِری نیندیں کِدھر گئے مِرے خواب سفِینہ ڈُوب گیا لیکن اِس وقار کے ساتھ کہ سر اُٹھا نہ سکا پھر کہیں کوئی گرداب عجیب بارشِ نیساں ہوئی ہے اَب کے برس صدف صدف شب ِ وعدہ ہے اَور گُہر...
  17. فرخ منظور

    جگر ًبببًیوں تو ہونے کو گلستاں بھی ہے، ویرانہ بھی ہے ۔ جگر مراد آبادی

    یوں تو ہونے کو گلستاں بھی ہے، ویرانہ بھی ہے دیکھنا یہ بھی ہے ہم میں کوئی دیوانہ بھی ہے بات سادہ ہی سہی، لیکن حکیمانہ بھی ہے یعنی ہر انساں بقدرِ ہوش دیوانہ بھی ہے ہوشیار او مستِ صہبائے تغافل ہوشیار عشق کی فطرت میں اِک شانِ حریفانہ بھی ہے ہوش میں رہتا تو کیا جانے کہاں رکھتا قدم یہ غنیمت ہے...
  18. فرخ منظور

    فراز تیرے ہوتے ہوئے محفل میں جلاتے ہیں چراغ ۔ احمد فراز

    تیرے ہوتے ہوئے محفل میں جلاتے ہیں چراغ لوگ کیا سادہ ہیں سورج کو دکھاتے ہیں چراغ اپنی محرومی کے احساس سے شرمندہ ہیں خود نہیں رکھتے تو اوروں کے بجھاتے ہیں چراغ بستیاں دور ہوئی جاتی ہیں رفتہ رفتہ دمبدم آنکھوں سے چھپتے چلے جاتے ہیں چراغ کیا خبر ان کو کہ دامن بھی بھڑک اٹھتے ہیں جو زمانے کی ہواؤں...
  19. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی ائیر ہوسٹس ۔ مصطفیٰ زیدی

    ائیر ہوسٹس شہر کی روشنیاں کِرمکِ آوارہ ہیں نہ وہ ہوٹل کے دریچے نہ وہ بجلی کے ستون نہ وہ اطراف نہ رفتار کا گمنام سکون ہر گھڑی عشوۂ پرواز بنی جاتی ہے سیکڑوں فیٹ تلے رینگ رہی ہو گی زمین کہیں پٹرول کے مرکز، کہیں سڑکوں کا غبار تار کے آہنی کھمبوں میں گھِری راہ گذار صرف اِک دُور کی آواز بنی جاتی ہے...
  20. فرخ منظور

    درد اُن نے کیا تھا یاد مجھے بھول کر کہیں ۔ میر درد

    اُن نے کیا تھا یاد مجھے بھول کر کہیں پاتا نہیں ہوں تب سے میں اپنی خبر کہیں آجائے ایسے جینے سے اپنا تو جی بتنگ جیتا رہے گا کب تئیں اے خضر مر کہیں پھرتی رہی تڑپتی ہے عالم میں جا بجا دیکھا نہ میری آہ نے روئے اثر کہیں مدت تلک جہان میں ہنستے پھرا کیے جی میں ہے خوب روئیے اب بیٹھ کر کہیں یوں تو نظر...
Top