مصطفیٰ زیدی رشتۂ جام و سبُو ۔ مصطفیٰ زیدی

فرخ منظور

لائبریرین
رشتۂ جام و سبُو

جانے کب ابر سے نکلے مرا کھویا ہوا چاند
جانے کب مجلسِ ارباب ِوفا روشن ہو
راستے نور طلب شامِ سفر عکس ہی عکس
ڈوبتے، کانپتے ، سہمے ہوئے، بجھتے ہوئے دل
ورد کا بوجھ اٹھائے ہوئے گھبرائے ہوئے
صبح کے کفش زدہ رات کے ٹھکرائے ہوئے

جانے کب حلقۂ گرداب سے ابھرے ساحل
سر پٹکتی ہوئی موجوں کا تلاطم کم ہو
جانے کب گونجتی لہروں کی صدا مدّھم ہو
کف اگلتا ہوا طوفان، پر اسرار ہوا
غیر محفوظ خلاؤں میں زمیں کا بن باس
نہ فضا لطف پہ مائل، نہ فلک درد شناس

کر دئیے ترک قبیلوں نے جنوں کے رشتے
زخم کس طرح بھریں چاکِ جگر کیسے سلیں
سرحدیں آگ کامیدان بنی بیٹھی ہیں
اے غزالانِ چمن اب کے ملیں یا نہ ملیں

مل کے بیٹھیں بھی توجانے کوئی کیا بات کہے
رشتۂ جامِ و سبوُ یاد رہے یا نہ رہے

(مصطفیٰ زیدی)​
 
آخری تدوین:
Top