نتائج تلاش

  1. فرخ منظور

    ٹائپنگ مکمل خدا کی قسم ۔ سعادت حسن منٹو

    خدا کی قسم (سعادت حسن منٹو) اِدھر سے مسلمان اور اُدھر سے ہندو ابھی تک آ جا رہے تھے۔ کیمپوں کے کیمپ بھرے پڑے تھے۔ جن میں تل دھرنے کے لیے واقعی کوئی جگہ نہیں تھی لیکن اس کے باوجود ان میں ٹھونسے جا رہے تھے۔ غلّہ ناکافی ہے۔ حفظانِ صحت کا کوئی انتظام نہیں۔ بیماریاں پھیل رہی ہیں اس کا ہوش کس کو تھا۔...
  2. فرخ منظور

    ٹائپنگ مکمل منٹو (خاکہ) ۔ سعادت حسن منٹو

    منٹو (خاکہ) (سعادت حسن منٹو) یہ مضمون منٹو صاحب نے انتقال سے تقریباً تین ماہ قبل ستمبر1954ء میں رسالہ نقوش کے لئے لکھا۔ مدیر نے ’طلوع‘ (رسالے کے پیش لفظ) میں اس تحریرکے لئے ’ایک نیا سلسلہ‘ کی سُرخی کے تحت یہ نوٹ لکھا: ’’ہمارا خیال ہے خود ادیبوں سے بھی اپنی ذات کے بارے میں لکھوانا چاہےئے کہ وہ...
  3. فرخ منظور

    وکھو وکھ ۔ اشفاق احمد

    وکھو وکھ (تحریر: اشفاق احمد) میں اس کو پورے انتالیس سال، گیارہ مہینے، آٹھ دن اور پانچ گھنٹے بعد ملا۔ اس کی شکل و صورت بالکل ویسی تھی جیسی پچھلی سالگرہ پر … تب اس نے اٹھارہ موم بتیاں بجھا کر اپنا چہرہ سرخ اورماتھا عرق آلود کر لیا تھا۔ میرا چھوٹا بھائی اس کی تین سوا تین سیر کی گت تھام کر کھڑا...
  4. فرخ منظور

    ٹائپنگ مکمل باسودے کی مریم ۔ اسد محمد خان

    باسودے کی مریم تحریر:اسد محمّد خان مریم کےخیال میں ساری دنیا میں بس تین ہی شہر تھے۔مکہ،مدینہ اور گنج باسودہ۔مگر یہ تین تو ہمارا آپ کا حساب ہے،مریم کے حساب سے مکہ،مدینہ ایک ہی شہر تھا۔"اپنے حجور کا شہر"۔مکے مدینے سریپ میں ان کے حجور تھے اور گنج باسودے میں اُن کا ممدو۔ ممدو اُن کا چھوٹا بیٹا...
  5. فرخ منظور

    روحوں کی دعوت ۔ الیگزنڈر پشکن

    روحوں کی دعوت تحریر: الیگزنڈر پشکن آدریان پروخوروف کے گھر کا سارا سازوسامان جنازہ لے جانے والی گاڑی پر لدچکا تھا۔ مریل گھوڑے چوتھی دفعہ بسمانیا سے نکتسکایا سڑک کی طرف چلے جہاں اس نے نیا مکان خریدا تھا۔ تابوت ساز نے دکان مقفل کر باہر دروازہ پر اس اعلان کی تختی لٹکا دی کہ گھر کرایہ یا فروخت کے...
  6. فرخ منظور

    ذوق ساقیا عید ہے، لا بادے سے مینا بھر کے ۔ ذوق

    ساقیا عید ہے، لا بادے سے مینا بھر کے کہ مے آشام پیاسے ہیں مہینا بھر کے آشناؤں سے اگر ایسے ہی بے زار ہو تُم تو ڈبو دو انہیں دریا میں سفینا بھر کے عقدِ پرویں ہے کہ اس حقۂ پرویں میں مَلَک لاتے ہیں اُس رخِ روشن سے پسینا بھر کے دل ہے، آئینہ صفا چاہیے رکھنا اِس کا زنگ سے دیکھ نہ بھر اس میں تو کینا...
  7. فرخ منظور

    بہادر شاہ ظفر یارِ دیرینہ ہے پر روز ہے وہ یار نیا ۔ بہادر شاہ ظفر

    یارِ دیرینہ ہے پر روز ہے وہ یار نیا ہر ستم اس کا نیا اس کا ہے ہر پیار نیا نئی انداز کا ہے دامِ بلا طرۂ یار روز ہے ایک نہ اک اس میں گرفتار نیا تیری ہاں میں ہے نہیں اور نہیں میں ہے ہاں تیرا اقرار نیا ہے ترا انکار نیا کیسے بیدرد دلِ آزار کو دل ہم نے دیا روز ہے درد نیا، روز اک آزار نیا کیا قیامت...
  8. فرخ منظور

    ذوق کیا غرض لاکھ خدائی میں ہوں دولت والے ۔ ذوق

    کیا غرض لاکھ خدائی میں ہوں دولت والے اُن کا بندہ ہوں جو بندے ہیں محبت والے چاہیں گر چارہ، جراحت کا محبت والے بیچیں الماس و نمک سنگِ جراحت والے گئے جنت میں اگر سوزِ محبت والے تو یہ جانو رہے دوزخ ہی میں جنت والے صبحِ محشر کو بھی اٹھیں نہ ترے متوالے ساقیا ہوں جو صبوحی کی نہ عادت والے دخترِ رز...
  9. فرخ منظور

    میر جان ہے تو جہان ہے پیارے ۔ میر تقی میر

    میر عمداً َ بھی کوئی مرتا ہے جان ہے تو جہان ہے پیارے مکمل غزل قصد گر امتحان ہے پیارے اب تلک نیم جان ہے پیارے سجدہ کرنے میں سر کٹیں ہیں جہاں سو ترا آستان ہے پیارے گفتگو ریختے میں ہم سے نہ کر یہ ہماری زبان ہے پیارے کام میں قتل کے مرے تن دے اب تلک مجھ میں جان ہے پیارے چھوڑ جاتے ہیں دل کو تیرے...
  10. فرخ منظور

    سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے ۔ رام پرساد بسمل

    سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے اے شہیدِ ملک و ملت میں ترے اوپر نثار لے تری ہمّت کا چرچا غیر کی محفل میں ہے وائے قسمت پاؤں کی اے ضُعف کچھ چلتی نہیں کارواں اپنا ابھی تک پہلی ہی منزل میں ہے رَہ روِ راہِ محبت! رہ نہ جانا راہ میں لذّتِ صحرا نوردی دوری...
  11. فرخ منظور

    سیماب اکبر آبادی جو تھا برتاؤ دنیا کا، وہی اُس نے کیا مجھ سے ۔ سیماب اکبر آبادی

    جو تھا برتاؤ دنیا کا، وہی اُس نے کیا مجھ سے میں دنیا سے انوکھا تھا کہ وہ کرتا وفا مجھ سے؟ ہوئی ہے آئینہ خانے میں کیا ایسی خطا مجھ سے کہ تیرا عکس بھی ہے آج شرمایا ہوا مجھ سے تپِ فرقت کا شاید کچھ مداوا ہونے والا ہے کہ اب خود پوچھتے ہیں چارہ گر میری دوا مجھ سے مرے پہلو میں دل رکھ کر مجھے قسمت نے...
  12. فرخ منظور

    میر اب وہ نہیں کہ آنکھیں تھیں پُرآب روز و شب ۔ میر تقی میر

    اب وہ نہیں کہ آنکھیں تھیں پُرآب روز و شب ٹپکا کرے ہے آنکھوں سے خوناب روز و شب اک وقت رونے کا تھا ہمیں بھی خیال سا آتے تھے آنکھوں سے چلے سیلاب روز و شب اُس کے لیے نہ پھرتے تھے ہم خاک چھانتے رہتا تھا پاس وہ دُرِ نایاب روز و شب قدرت تو دیکھ عشق کی، مجھ سے ضعیف کو رکھتا ہے شاد بے خور و بے خواب...
  13. فرخ منظور

    اگر تو دیکھ لے نقشہ رخِ بت کی صفائی کا ۔ حاجی فضل اللہ خان قندھاری

    اگر تو دیکھ لے نقشہ رخِ بت کی صفائی کا تو دعویٰ ٹوٹ جائے شیخ تیری پارسائی کا تری الفت میں او ظالم اگر جیتا بچا اب کے بھروں گا دم نہ ہرگز پھر کسی کی آشنائی کا بہایا پھر تو آنکھوں نے بڑا اک خون کا دریا تصور بندھ گیا دل میں جو اُس دستِ حنائی کا لگاتے دل کبھی ہرگز نہ اپنا اُس ستمگر سے اگر معلوم...
  14. فرخ منظور

    میر خبط کرتا نہیں کنارہ ہنوز ۔ میر تقی میر

    خبط کرتا نہیں کنارہ ہنوز ہے گریبان پارہ پارہ ہنوز آتشِ دل نہیں بجھی شاید قطرہء اشک ہے شرارہ ہنوز اشک جھمکا ہے جب نہ نکلا تھا چرخ پر صبح کا ستارہ ہنوز لب پہ آئی ہے جان کب کی ہے اس کے موقوف یک اشارہ ہنوز عمر گزری دوائیں کرتے میرؔ دردِ دل کا ہوا نہ چارہ ہنوز (میر تقی میرؔ)
  15. فرخ منظور

    ذوق کب حق پرست زاہدِ جنت پرست ہے ۔ ذوق

    کب حق پرست زاہدِ جنت پرست ہے حوروں پہ مر رہا ہے، یہ شہوت پرست ہے دل صاف ہو تو چاہیے معنی پرست ہو آئینہ خاک صاف ہے، صورت پرست ہے درویش ہے وہی جو ریاضت میں چست ہو تارک نہیں فقیر بھی، راحت پرست ہے جز زلف سوجھتا نہیں اے مرغِ دل تجھے خفّاش٭ تو نہیں ہے کہ ظلمت پرست ہے دولت کی رکھ نہ مارِ سرِ گنج...
  16. فرخ منظور

    اٹھ جائے گر یہ بیچ سے پردہ حجاب کا ۔ قائم چاند پوری

    اٹھ جائے گر یہ بیچ سے پردہ حجاب کا دریا ہی پھر تو نام ہے ہر اِک حباب کا کیوں چھوڑتے ہو دُردِ تہِ جام مے کشو ذرّہ ہے یہ بھی آخر اسی آفتاب کا ایسی ہوا میں پاس نہ ساقی نہ جامِ مے رونا بجا ہے حال پہ میرے سحاب کا ہونا تھا زندگی ہی میں منہ شیخ کا سیاہ اس عمر میں ہے ورنہ مزا کیا خضاب کا اِس دشتِ پر...
  17. فرخ منظور

    میر ہوتا نہیں ہے باب اجابت کا وا ہنوز ۔ میر تقی میر

    ہوتا نہیں ہے باب اجابت کا وا ہنوز بسمل پڑی ہے چرخ پہ میری دعا ہنوز دن رات کو کھنچا ہے قیامت کا اور میں پھرتا ہوں منہ پہ خاک ملے، جا بجا ہنوز خط کاڑھ لا کے تم تو مُنڈا بھی چلے ولے ہوتی نہیں ہماری تمہاری صفا ہنوز غنچے چمن چمن کھلے اس باغِ دہر میں دل ہی مرا ہے جو نہیں ہوتا ہے وا ہنوز احوال نامہ...
  18. فرخ منظور

    ذوق اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے ۔ ذوق

    اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے تم نے ٹھہرائی اگر غیر کے گھر جانے کی تو ارادے یہاں کچھ اور ٹھہر جائیں گے خالی اے چارہ گرو! ہوں گے بہت مرہم واں پر مرے زخم نہیں ایسے کہ بھر جائیں گے پہنچیں گے رہِ گزرِ یار تلک کیوں کر ہم پہلے جب تک نہ دو عالم سے...
  19. فرخ منظور

    میر میں کون ہوں اے ہم نفساں، سوختہ جاں ہوں ۔ میر تقی میر

    میں کون ہوں اے ہم نفساں، سوختہ جاں ہوں اک آگ مرے دل میں ہے جو شعلہ فشاں ہوں لایا ہے مرا شوق مجھے پردے سے باہر میں ورنہ وہی خلوتیِ رازِ نہاں ہوں جلوہ ہے مجھی سے لبِ دریائے سخن پر صد رنگ مری موج ہے، میں طبعِ‌رواں ہوں پنجہ ہے مرا پنجۂ خورشید میں ہر صبح میں شانہ صفت سایہ روِ زلفِ بُتاں ہوں دیکھا...
  20. فرخ منظور

    میر پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ ۔ میر تقی میر

    پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں مکمل غزل مشہور ہیں دلوں کی مرے بےقراریاں جاتی ہیں لامکاں کو دلِ شب کی زاریاں چہرے پہ جیسے زخم ہےناخن کا ہر خراش اب دیدنی ہوئی ہیں مری دست کاریاں سو بار ہم نے گُل کے کہے پر چمن کے بیچ بھر دی ہیں آبِ‌ چشم سے راتوں کو...
Top