اٹھ جائے گر یہ بیچ سے پردہ حجاب کا ۔ قائم چاند پوری

فرخ منظور

لائبریرین
اٹھ جائے گر یہ بیچ سے پردہ حجاب کا
دریا ہی پھر تو نام ہے ہر اِک حباب کا

کیوں چھوڑتے ہو دُردِ تہِ جام مے کشو
ذرّہ ہے یہ بھی آخر اسی آفتاب کا

ایسی ہوا میں پاس نہ ساقی نہ جامِ مے
رونا بجا ہے حال پہ میرے سحاب کا

ہونا تھا زندگی ہی میں منہ شیخ کا سیاہ
اس عمر میں ہے ورنہ مزا کیا خضاب کا

اِس دشتِ پر سراب میں بہکے بہت پہ حیف!
دیکھا تو دو قدم پہ ٹھکانا تھا آب کا

زاہد، مریضِ عشق پہ ہو شربِ مے حرام
بارے یہ مسئلہ ہے تری کس کتاب کا؟

جوں سرمہ کیوں نہ چشم میں قائم کو ہو جگہ
آخر وہ خاکِ پا ہے شہِ بُوتراب کا

(قائم چاند پوری)​
 
اٹھ جائے گر یہ بیچ سے پردہ حجاب کا
دریا ہی پھر تو نام ہے ہر اِک حباب کا
عقل سوچنے سے عاری ہے اس دور میں قائم چاند پوری کا تخیل کیسی عروج ، کیسی بلندی پر تھا
اِس دشتِ پر سراب میں بہکے بہت پہ حیف!
دیکھا تو دو قدم پہ ٹھکانا تھا آب کا

کیا کہنے قائم چاند پوری صاحب کے
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
Top